سوئٹزرلینڈ، میناروں کی تعمیر پر پابندی سے کیا حاصل ہوا؟
30 نومبر 2019
سوئٹزر لینڈ میں دس برس پہلے مساجد میں میناروں پر پابندی کی گئی۔ یہ فیصلہ لوگوں کی اکثریت رائے سے ہوا تھا لیکن سوئس معاشرے پر اس کیا اثرات پڑے؟
اشتہار
سوئٹزرلینڈ کے زیادہ تر سیاست دان، مسیحی رہنما اور مسلم تنظیمیں اس پابندی کے خلاف تھیں۔ لیکن قدامت پسند جماعت سوئس پیپلز پارٹی اور مسیحی تنظیم فیڈرل ڈیموکریٹک یونین اس پابندی کے حق میں تھے۔ ان کا موقف تھا کہ مساجد کے لمبے لمبے مینار یورپ میں اسلام کی مذہبی اور سیاسی طاقت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔
اور جب عوامی ریفرنڈم ہوا تو ساڑھے ستاون فیصد سوئس ووٹروں نے میناروں پر پابندی کے حق میں ووٹ دے کر لوگوں کو حیران کر دیا۔
اس وقت پابندی کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس سے سوئٹزرلینڈ میں اسلام کی ترویج کو روکا جا سکے گا۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ مینار تعمیر کرنا اسلام میں کوئی فرض نہیں، کیوں کہ قرآن میں میناروں سے متعلق کوئی حوالہ نہیں۔ پھر یہ کہ دنیا بھر میں ہزاروں ایسی مساجد موجود ہیں، جن کے مینار نہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ میناروں پر پابندی سے سوئٹزرلینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کی عبادت پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔
دوسری جانب مسلم تنظیموں کا کہنا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند اس معاملے کو فقط سیاسی مفادات اور اسلام مخالف مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سوئس بشپس کی کانفرنس نے بھی تب اپنے بیان میں کہا تھا کہ میناروں پر پابندی سے ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ حکومت کا بھی موقف تھا کہ ایسا کوئی اقدام غیرضروری ہوگا۔
دنیا کی بڑی مساجد ایک نظر میں
یورپ کی سب سے بڑی مسجد روس میں واقع ہے اور اس کا افتتاح گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ اس روسی مسجد میں ایک وقت میں دس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا کی دیگر بڑی مساجد کی تصاویر دیکھیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Reuters/M. Zmeyev
مسجد الحرام
مکہ کی مسجد الحرام کو عالم اسلام کی اہم ترین مساجد میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین لاکھ مربع میٹر پر تعمیر کی جانے والی یہ مسجد دنیا کی سب سے بڑی مسجد بھی ہے۔ یہ مسجد سولہویں صدی میں قائم کی گئی تھی اور اس کے نو مینار ہیں۔ خانہ کعبہ اسی مسجد کے مرکز میں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ اس عمارت میں توسیع کی جا چکی ہے اور آج کل اس میں دس لاکھ افراد ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dAP Photo/K. Mohammed
مسجد نبوی
مسجد الحرام کے بعد مسجد نبوی اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اس مسجد میں پیغمبر اسلام کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد سن 622ء میں رکھا گیا تھا۔ اس میں چھ لاکھ افراد کی گنجائش ہے اور اس کے میناروں کی اونچائی ایک سو میٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/epa
یروشلم کی مسجد الاٰقصی
مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مذہبی مقام ہے اور یہ یہودیوں کے مقدس ترین مقام ٹیپمل ماؤنٹ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ گنجائش کے حوالے سے اس مسجد میں صرف پانچ ہزار افراد ہی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا سنہری گنبد دنیا بھر میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ اس مسجد کا افتتاح سن 717ء میں ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
حسن دوئم مسجد، مراکش
مراکش کے شہر کاسابلانکا کی یہ مسجد مراکش کے باشادہ شاہ حسن سے موسوم ہے۔ کاسابلانکا کو دار البیضاء بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کا افتتاح 1993ء میں شاہ حسن کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس کا مینار 210 میٹر اونچا ہے، جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images
ابو ظہبی کی شیخ زید مسجد
2007ء میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد دنیا کی آٹھویں بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا طرز تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے گنبد کا قطُر 32 میٹر کے برابر ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا گنبد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ ہزار مربع میٹر پر بچھایا ہوا قالین ہاتھوں سے بُنا گیا ہے، جو اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے بڑا قالین ہے۔
تصویر: imago/T. Müller
روم کی مسجد
اطالوی دارالحکومت روم کیتھولک مسیحیوں کا مرکز کہلاتا ہے لیکن اس شہر میں ایک بہت بڑی مسجد بھی ہے۔ تیس ہزار مربع میٹر پر پھیلی ہوئی یہ مسجد یورپ کی سب بڑی مسلم عبادت گاہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس مسجد کے احاطے میں اٹلی کا اسلامی مرکز قائم ہے اور یہاں پر ثقافتی اجتماعات کے ساتھ ساتھ سنی اور شیعہ مسالک کی مذہبی تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
گروزنی کی احمد قدیروف مسجد
چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کی مرکزی مسجد جمہوریہٴ چیچنیا کے سابق صدر اور روسی مفتی احمد قدیروف سے موسوم ہے۔ احمد قدیروف 2004ء میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر کو چیچنیا میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے کئی مرتبہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔ اس عبادت گاہ کو ایک ترک کمپنی نے تعمیر کیا ہے اور اس کا افتتاح 2008ء میں کیا گیا۔ یہ مسجد زلزلہ پروف ہے۔
روسی جمہوریہٴ تاتارستان کی یہ مسجد روسی قبضے سے قبل کے کازان کے آخری امام کی یاد دلاتی ہے۔ اس مسجد کے پڑوس میں ایک آرتھوڈوکس کلیسا بھی قائم ہے اور یہ دونوں عبادت گاہیں تاتارستان میں آرتھوڈوکس اور مسلمانوں کے پر امن بقائے باہمی کی علامت ہیں۔ 2005ء میں نو سال تک جاری رہنے والی تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران اس مسجد کو وسعت دی گئی تھی۔
تصویر: Maxim Marmur/AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
اب اس متنازعیہ فیصلے کو ایک دہائی گزر چکی ہے۔ تاہم اس دوران سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ بغیر مینار مساجد اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں اور مزید بھی بن رہی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں اسلام سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذہب نہیں۔ اس کے باوجود ملک کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں موجود ساڑھے چار لاکھ مسلم آبادی کی مختلف تنظیمیں اور عقائد ہیں۔ ان تنظیموں کی تعداد ساڑھے تین سو ہے، جب کہ قریب تین سو مساجد ہیں، جن میں سے صرف چار مساجد کے مینار ہیں۔
مساجد میں میناروں پر پابندی کے علاوہ سوئٹرزلینڈ کے دو علاقوں میں مقامی سطح پر برقعے پر پابندی ہے۔ بعض قدامت پسند حلقے اس پابندی کو پورے ملک میں لاگو کرنے کے حق میں ہیں لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں۔