سوئٹزرلینڈ میں برقعے پر پابندی: عوام حامی لیکن پارلیمان خلاف
26 ستمبر 2019
سوئٹزرلینڈ میں برقعہ پہننے پر ملک گیر پابندی کے مطالبے کو ملکی پارلیمان نے اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا ہے۔ سوئس وزیر انصاف کے مطابق عوامی لباس تک کے لیے سرکاری ضابطے بنانا لبرل سوئس معاشرے کی سماجی اقدار سے متصادم ہے۔
اشتہار
اس موضوع پر سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر مطالبے ایک ایسی تحریک کی طرف سے کیے جا رہے تھے، جس کا نام 'مکمل برقعہ پہننے پر پابندی کے لیے ہاں‘ ہے اور بَیرن میں سوئس پارلیمان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون کو نو کے مقابلے میں 34 ووٹوں کی بہت بڑی اکثریت سے رد کر دیا۔
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Kalandarov
10 تصاویر1 | 10
اس قرارداد کے برعکس ایک دوسری قرارداد پر بھی سوئس ایوان بالا یا 'بنڈس راٹ‘ میں رائے شماری ہوئی، جسے بہت بڑی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
یہ قرارداد اس بارے میں تھی کہ مستقبل میں پورے ملک میں ہر اس انسان کو اپنا چہرہ دکھانا ہو گا، جس کی شناخت کا طے کیا جانا لازمی ہو۔
تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ سوئس ریاست کے تمام کینٹن خود کر سکیں گے۔
اس دوسری قرارداد کے حق میں 35 ارکان نے اپنی رائے دی جبکہ مخالفت کرنے والے اراکین کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ دو ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔
زیادہ متاثر مسلمان خواتین ہوتیں
برقعہ پہننے کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں عوامی سطح پر شروع کی گئی تحریک کا مطالبہ یہ تھا کہ ایلپس کی اس جمہوریہ میں اس بات پر مکمل پابندی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شہری اس طرح عوامی مقامات پر نظر آئے کہ اس کا چہرہ نظر نہ آ رہا ہو۔ اس مطالبے سے سب سے زیادہ وہ قدامت پسند مسلمان خواتین متاثر ہوتیں، جو اس یورپی ملک میں مسلم مذہبی اقلیت کا حصہ ہیں اور برقعہ، نقاب یا حجاب استعمال کرتی ہیں۔
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
اگر یہ پارلیمانی قرارداد منظور ہو جاتی، تو اس کا اطلاق آئندہ ایسی سیاح خواتین پر بھی ہوتا، جو محدود عرصے کے لیے سوئٹزرلینڈ آتی ہیں لیکن نقاب یا برقعہ پہننتی ہیں۔ ایسی تمام سیاح خواتین بھی تقریباﹰ ہمیشہ ہی مسلمان ہوتی ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری سے سوئٹزرلینڈ میں ایسے مظاہرین کے لیے بھی زندگی مشکل ہو جاتی، جو چہروں پر نقاب پہن کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتے ہیں۔
قانونی پابندی 'کمزوری کی عکاس‘ ہوتی
اس موضوع پر سوئس ایوان بالا میں بحث کے دوران خاتون وزیر انصاف کارِن کَیلر زُوٹر نے کہا کہ خواتین کا اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنا سوئس معاشرتی روایات سے میل نہیں کھاتا اور مسلمانوں میں بھی یہ انتہائی قدامت پسند مذہبی سوچ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دوسری طرف ریاست کا عوام کو یہ بتانا کہ انہیں کس طرح کا لباس پہننا چاہیے، یہ بات بھی لبرل سوئس معاشرتی اقدار سے عین متصادم ہے۔
سوئس خاتون وزیر انصاف نے کہا کہ اگر پورے ملک میں برقعہ پہننے پر پابندی لگا دی جاتی، تو یہ دراصل ایک سماجی کمزوری کی عکاس ہوتی۔ اس کے برعکس ملکی پارلیمان نے جو قرارداد منظور کی ہے، اس میں زیادہ دانش مندانہ قانون سازی کرتے ہوئے اس 'مسئلے کو وہیں پر حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں یہ موجود ہے،‘ نہ کہ اس کی وجہ سے برقعہ پہننے پر ملک گیر پابندی لگا دی جاتی۔
م م / ش ح (کے این اے)
کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار
دنیا کے مختلف مذاہب میں عقیدت کے طور پر سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس کے لیے کِپا، ٹوپی، پگڑی، چادر اور دستار سمیت بہت سی مختلف اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب میں سر کو کیسے ڈھکا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
کِپا
یورپی یہودیوں نے سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مذہبی علامت کے طور پر یارمولکے یا کِپا پہننا شروع کیا تھا۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق تمام مردوں کے لیے عبادت کرنے یا قبرستان جاتے وقت سر کو کِپا سے ڈھانپنا لازمی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
بشپ کا تاج
مائٹر یا تاج رومن کیتھولک چرچ کے بشپس مذہبی رسومات کے دوران پہنتے ہیں۔ اس تاج نما ٹوپی کی پشت پر لگے دو سیاہ ربن بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی علامت ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Seeger
پگڑی
سکھ مذہب کا آغاز شمالی بھارت میں پندرہویں صدی میں ہوا تھا۔ سکھ مت میں داڑھی اور پگڑی کو مذہبی اہمیت حاصل ہے۔ پگڑی عام طور پر سکھ مرد ہی باندھتے ہیں۔ نارنگی رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Dyck
چادر
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین چادر اوڑھتی ہیں، جسے فارسی میں چادور کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کے معنی خیمے کے ہیں۔ اس لباس سے پورا جسم ڈھک جاتا ہے۔ زیادہ تر سیاہ رنگ کی چادر استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Kappeler
راہباؤں کا حجاب
دنیا بھر میں مسیحی راہبائیں مذہبی طور پر ایک خاص قسم کا لباس پہنتی ہیں۔ یہ لباس مختلف طوالت اور طریقوں کے ہوتے ہیں اور ان کا دار و مدار متعلقہ چرچ کے مذہبی نظام پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
ہیڈ اسکارف
ہیڈ اسکارف کو حجاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ حجاب پہننے پر مغربی ممالک میں شدید بحث جاری ہے۔ ترک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے سروں کو ہیڈ اسکارف سے ڈھکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schiffmann
شیتل
ھاسیدک برادری سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ کٹر یہودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا کر وگ پہنیں۔ اس وگ کو شیتل کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Y. Dongxun
بیرت
رومن کیھتولک پادریوں نے تیرہویں صدی سے بیرت پہننا شروع کیا تھا۔ اس کی تیاری میں کپڑا، گتا اور جھالر استعمال ہوتے ہیں۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس میں اس ہیٹ کے چار کونے ہوتے ہیں جبکہ متعدد دیگر ممالک میں یہ تکونی شکل کا ہوتا ہے۔
تصویر: Picture-alliance/akg-images
نقاب یا منڈاسا
کاٹن سے بنا ہوا یہ اسکارف نما کپڑا کم از کم پندرہ میٹر طویل ہوتا ہے۔ اسے زیادہ تر مغربی افریقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طوارق جنگجو اپنا چہرہ چھپانے اور سر کو ڈھکنے کے لیے اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
یہودی شٹریمل مخمل اور فر سے بنائی جاتی ہے۔ شادی شدہ یہودی مرد اس ہیٹ کو چھٹیوں اور مذہبی تقاریب میں پہنتے ہیں۔ یہ جنوب مشرقی یورپ میں آباد ھاسیدک یہودی برادری نے سب سے پہلے پہننا شروع کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto
ہیٹ
شمالی امریکا کی آمش برادری کا شمار قدامت پسند مسیحیوں میں ہوتا ہے۔ آمش اٹھارہویں صدی میں یورپ سے امریکا جا کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی خواتین بالکل سادہ جبکہ مرد تھوڑے مختلف قسم کے فیلٹ ہیٹ پہنتے ہیں۔