سوائن فلو، جان لیوا کیوں؟
24 دسمبر 2009اِن سائنسدانوں کی تحقیق کے نتائج ایک ممتاز امریکی طبّی جریدے کی تازہ اشاعت میں شائع کئے گئے ہیں۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام مریضوں کے پھیپھڑے بُری طرح سے متاثر ہوئے تھے تاہم اِن پر اِس بیماری کا اثر تین مختلف طریقوں سے ہوا۔ مرنے والوں کے پھیپھڑوں سے حاصل کئے گئے نمونوں کے معائنے سے پتہ چلا کہ کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا، کچھ کے پھیپھڑوں میں متاثرہ حصوں کے خلیوں کی موت واقع ہو گئی تھی جبکہ چند ایک کی سانس کی نالیوں سے خون جاری ہو گیا تھا۔
اِن میں سے سوائن فلُو کے جو مریض پہلے سے دِل کے کسی عارضے یا سرطان میں مبتلا تھے، وہ ایک مہلک بیکٹریائی انفیکشن کا شکار ہوئے۔ چنانچہ ایسے مریضوں کے لئے اینٹی وائرل علاج کے ساتھ ساتھ اینٹی بیکٹیریائی تھیراپی بھی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ایسے مریضوں کو حفظِ ماتقدم کے طور پر مصنوعی تنفس فراہم کیا جانا چاہئے۔
اِس سے پہلے کی جانے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ سوائن فلُو سے بہت زیادہ متاثرہ اور بعد میں انتقال کر جانے والے مریضوں کو زیادہ تر سانس کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اِس کے برعکس سوائن فلُو کے دیگر مریضوں کے ہاں زیادہ تر بخار، کھانسی اور پٹھوں کے درد کی علامات نظر آتی ہیں۔
برازیل کے سائنسدانوں نے، جن کی قیادت تھائیس ماؤعاد کر رہے تھے، اپنی تحقیق کے لئےسوائن فلُو کے باعث اِس سال جون اور جولائی میں انتقال کر جانے والے ایک سال تا اڑسٹھ سال کے مریضوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اِن میں سے سولہ مریض ایسے تھے، جو پہلے سے کسی مرض کا مثلاً دِل کے عارضے یا کینسر کا شکار تھے۔
عالمی ادارہء صحت کے مطابق اب تک دنیا کے سولہ ممالک میں پینسٹھ ملین انسان سوائن فلُو سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکےلگوا چکے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل