سوائن فلو: کئی ملک متاثر، ڈیڑھ سو افراد ہلاک
28 اپریل 2009یوں عالمی ادارہ صحت نے تنبیہہ کردی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس مرض کے پھیلاؤ کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے کیونکہ اب یہ وارننگ چھٹے درجے کی اس انتہائی تنبیہہ سے محض دو درجے کم ہے جس کا مطلب کسی بھی بیماری کا عالمی سطح پر مختلف خطوں اور ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لےلینا ہوتا ہے۔
میکسیکو میں جہاں سے یہ مرض شروع ہوا سوائن فلو کے ہاتھوں اب تک قریب ڈیڑھ سو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے اکثر بیس اور پچاس برس کے درمیان کی عمر والے شہری بتائے گئے ہیں۔
یہی مرض اب تک یورپ میں بھی پہنچ چکا ہے جہاں اسپین میں اس بیماری کے اولین مشتبہ واقعات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ اسپین میں اس بیماری کا پہلا مریض ایک ایسا 23 سالہ نوجوان بتایا گیا ہے جو ابھی حال ہی میں میکسیکو سے واپس لوٹا تھا۔ برطانیہ میں بھی دو افراد کے سوائن فلو کے وائریس کا شکار ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے جن کا سکاٹ لینڈ کے ایک ہسپتال میں علاج کیا جارہا ہے۔
بیلجیئم، فرانس، سویڈن، ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ میں اس بیماری کے اولین مشتبہ واقعات کی طبی چھان بین کا عمل جاری ہے جبکہ جرمنی میں ابھی تک سوائن فلو کا کوئی ایک بھی مشتبہ واقعہ سامنے نہیں آیا۔
میکسیکو کے بعد براعظم شمالی امریکہ میں اس مرض کے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اب تک نظر آنے والے واقعات کی تعداد 50 کے قریب ہو چکی ہے جن میں سے 28 ریاست نیویارک میں اور کم ازکم گیارہ کیلیفورنیا میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔
کینیڈا میں بھی سوائن فلو کا باعث بننے والے وائریس H1N1 سے متاثرہ عام شہریوں کی تعداد درجنوں میں بتائی گئی ہے جبکہ اسی بیماری کے متعدد لیکن فی الحال زیادہ تر مشتبہ واقعات کی رپورٹیں اسرائیل، چند جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں اور نیوزی لینڈ تک سے بھی ملی ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس بیماری کے بہت سے نئے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ کی سائنسی علوم کی قومی اکیڈیمی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مرض کے نئے واقعات پر ماہرین پوری طرح نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور یہ صورت حال تشویش کا باعث ہونے کے علاوہ بہت زیادہ احتیاط پسندی کی بھی متقاضی ہے تاہم اس وجہ سے کوئی بدحواسی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔
اس بیماری کے پھیلاؤ کی اب تک کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار مارٹن ونکل ہائڈ لکھتے ہیں کہ جب تک ماہرین کو H1N1 نامی وائریس اور اس کی انسانوں سے انسانوں کو منتقلی سے متعلق بنیادی سوالات کے جواب نہيں مل جاتے، تب تک طبی ماہرین کو خطرناک ترين صورت حال کا انديشہ رہے گا۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ انہيں يہ فرض کرنا پڑے گا کہ سوائن فلو کا یہ وائریس ايک عالمی وبا کی شکل اختيار کر سکتا ہے۔