سوات آپریشن:پناہ گزین سوات واپس جانے سے انکاری
23 جون 2009حکومت عام شہریوں سمیت سرکاری اہلکاروں کااعتماد بحال کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ بارہا اعلانات کے باوجود مالاکنڈ ڈویژن کے شورش زدہ علاقوں میں تعینات سرکاری اہلکاروں کی حاضری40 فیصد سے بھی کم ہے۔ سرکاری ملازمین کاکہناہے کہ مینگورہ سمیت سوات کے متعدد علاقوں میں حکومتی رِٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوات تک پہنچنے کیلئے کرفیو کاخاتمہ ضروری ہے لیکن راستے میں آنےوالے کئی علاقوں میں بدستور کرفیو نافذ ہے جبکہ امن وامان کی صورتحال بھی غیر یقینی ہے۔ محکمہ صحت کے پیرامیڈیکل ایسوسی ایشن سوات کے کوارڈنیشن سیکریٹری خورشیداحمد خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا : ”یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف سوات میں مسلسل کرفیو ہے جبکہ دوسری جانب حکومت سرکاری اہلکاروں سے ڈیوٹی پر حاضر ہونے کی ہدایت کررہی ہے ، خود دو مرتبہ سوات جانے کاارادہ کیا لیکن سوات کے داخلی علاقے لنڈاکئی تک بھی نہ پہنچ سکا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگرمحکمہ صحت کے اہلکار، وہاں پہنچ بھی جاتے ہیں تو سوات کے زیادہ ترلوگ تو نقل مکانی کرچکے ہیں ہم وہاں کس لئے بیٹھیں گےاورکس کاعلاج کریں گے، علاقے میں فوج ہے یا پھر طالبان ،جوایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں عام شہری تومردان ، چارسدہ اور صوابی میں ہی ہیں اور وہ ابھی جانے کیلئے رضا مند نہیں ہے، حالانکہ جو کاشتکار لوگ ہیں وہ اپنی فصلوں کو دیکھنے یا سنبھالنے کیلئے بے تاب ہیں کئی لوگ جانے کاارادہ بھی کرچکے ہیں لیکن مسلسل کرفیو کی وجہ سے نہ جاسکے حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی بھی سامنے نہیں آئی جن لوگوں کو جانے کیلئے کہاجارہاہے پہلے ان کو زندگی کی تحفظ فراہم تو کرے“۔
مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع سوات میں آٹھ ہفتے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے باوجود حکومتی عمل داری کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جہاں سوات اوربونیر کے مختلف علاقوں سے طالبان کی پھر سے علاقے میں گشت کرنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں وہاں شانگلہ کے علاقے ڈانڈا کے قریب پولیس کے وین پر خودکش حملہ کیاگیا جس میں ضلعی پولیس افسر گل ولی خان کے مطابق دواہلکار ہلاک جبکہ تین شدید زخمی ہوئے ہیں ۔
سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف شدید نوعیت کاآپریشن ایک ہفتے میں ختم ہوجائیگا تاہم سوات آپریشن میں عسکریت پسندوں کے کسی اہم لیڈر کی ہلاکت یا گرفتاری نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے خدشات موجود ہیں مالاکنڈ ڈویژن ،باجوڑ اورمومند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور اس دوران سیکیورٹی فورسز نے ایک اور محاز کھولتے ہوئے وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن شروع کردیا
۔ سیکورٹی فورسز اس آپریشن کے دوران جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹرز اور بھاری توپ خانے کااستعمال کررہی ہے تاہم عسکریت پسندوں کی کاروائیاں بھی بدستور جاری ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا اور میرانشاہ میں سیکورٹی فورسز کے کیمپوں پر کنی گورم اور کچ گئی میں حملے کئے گئےہیں ۔ جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کے ذریعے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے جس کےباعث متعدد عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح کوٹکی سرار روغہ اور عمرراغزی کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بھاری توپ خانے سے گولہ باری کرکے ان کے متعدد ٹھکانے تباہ کردیئے گئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے زمینی دستے بھی مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کررہےہیں۔ ایک ماہ قبل مالاکنڈ آپریشن کے ساتھ وزیرستان میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کااعلان کیاگیا تھا۔
یہ آپریشن کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد شروع کیاگیا جسے شروع کیے گئے اب ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ آپریشن راہ نجات شروع کرنے کے اعلان کے ساتھ ہزاروں خاندانوں نے جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی شروع کی اور ان لوگوں نے ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اوربنوں میں کرایہ کے مکانات یا رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی ہے۔
فرید اللہ خان ، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ