سوات میں ماورائے قانون قتل کے واقعات: ہیومن رائٹس واچ
17 جولائی 2010پاکستانی فوج کی جانب سے بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ کی تردید کی گئی ہے جس کے مطابق سوات میں مقامی طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران کم از کم 238 افراد کو طالبان کے شبے میں فوجی اہلکاروں نے اٹھایا اور بعد میں گولیوں سے چھلنی ان کی لاشیں مختلف مقامات سے برآمد ہوئیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہرعباس کا مزید کہنا تھا کہ فوج آپریشن کے دوران ماورائے قانون ہلاکتوں میں قطعاً ملوث نہیں تھی۔ فوجی ترجمان کا اصرار ہے کہ مقامی مزاحمت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی مشن انتہائی احتیاط سے مکمل کیا گیا تھا۔ سوات میں فوجی آپریشن مئی سن 2008 ء میں شروع ہوا تھا۔ اطہر عباس کے مطابق سوات کی صورت حال غیر معمولی تھی اور اس کو غیر معمولی انداز سے قابو میں لانے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سوات کی پولیس بھی ہلاکتوں کے عمل میں ڈھکے چھپے انداز میں شریک ہے لیکن 238 ہلاکتوں کے حوالے سے جو شواہد اکھٹے کئے گئے ہیں ان میں فوج کے اہلکار زیادہ متحرک تھے۔ ان ہلاکتوں میں سات افراد کے ماورائے قانون ہلاک کئے جانے کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہے کہ ان افراد کو مشتبہ طالبان سمجھ کر فوج کی جانب سے پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔ ان افراد کی لاشیں بعد میں جب ملی تو ان پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے اور ان کے جسموں کے بعض حصوں پر گولیاں ماری گئی تھیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے رپورٹ میں سات افراد کی ہلاکتوں میں ایک کے حوالے سے بتایاگیا کہ سوات کے علاقے مٹہ کے ایک مقامی شخص فرمان علی کو دو ساتھیوں سمیت اٹھائیس مارچ کو پاکستانی فوج کی بارہ پنجاب رجمنٹ کے اہلکاروں نے پابند کیا تھا۔ بعد ازاں فرمان علی کے ساتھ گرفتار کئے جانے والے دونوں افراد کی لاشیں طالبان عسکریت پسندکے رہنماؤں کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کی گئیں اور بتایا کہ یہ دونوں افراد فوج کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے تھے جب کہ فرمان علی کی لاش چھبیس مئی کو ایک کھیت میں پڑی ملی۔ اس کے سر میں گولی لگی ہوئی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کے پاکستانی نمائندے علی دایان حسن کا کہنا ہے کہ لوگوں کے سروں میں گولیاں مار کر پاکستانی فوج عام لوگوں کے دلوں کو جیت نہیں سکتی۔ علی دایان حسن کا مزید اس حوالے سے کہنا ہے کہ فرضی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی ہلاکتیں مزید دشمن پیدا کرنے کا جواز پیدا کرتی ہیں۔ اس مناسبت سے سوات کے مقامیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو تفصیلات فراہم کی تھیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ