1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوات کا تاریخی اثاثہ خطرات سے دوچار

18 جولائی 2012

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا سے بدھ مت دور کے تاریخی آثار کی چوری کے واقعات نے یہاں کے باسیوں کی ثقافتی شناخت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

پختونخوا کی وادیء سوات سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آس پاس کے علاقوں سے تاریخی آثار کی چوری کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ نا تجربہ کار ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے تاریخی مقامات کی بے دریغ کھدائی اور اسمگلر گروہوں کی سرگرمیوں نے صورتحال کو خاصا تشویشناک بنا ڈالا ہے۔

پاکستان کے محکمہء آثار قدیمہ کے نائب ڈائریکٹر عبد العظیم کے بقول، ’’ یہ ہماری تاریخ ہے کیونکہ ماضی میں ہم بدھ مت کے پیروکار رہ چکے ہیں، یہ ہمارا تاریخی اثاثہ ہے اور کسی قوم کے مستقبل کا دار ومدار اس کی ثقافتی تاریخ پر ہوتا ہے۔‘‘ عبد العظیم نے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں بدھا کے مجسمے کی تباہی کو خطے کے تاریخی اثاثے کے لیے عظیم نقصان قرار دیا اور کہا کہ اس واقعے کے بعد طالبان نے سوات کے عجائب گھر کو بھی تباہ کرنے کے لیے خودکش حملہ آور بھیجے۔ ان کے مطابق صدیوں پرانے اس تاریخی اثاثے کو اب نئے خطرات کا سامنا ہے۔

پاکستان کے شمال مغرب میں ایسے درجنوں مقامات موجود ہیں، جو ہزاروں برس قبل یہاں رائج بدھ مت ثقافت کا پتہ دیتے ہیں۔ ڈی پی اے کے مطابق عسکریت پسند بھی یہاں کی اسلام سے قبل گندھارا تہذیب کے نشانات مٹانے کے درپے تھے۔ 2001ء میں افغانستان کے علاقے بامیان میں بدھا کے مجسمے کی تباہی کے بعد 2007ء میں سوات کے اندر بھی بدھا کے نقش کی حامل ایک تاریخی چٹان تباہ کر دی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد تاریخی نوادرات کو سوات سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا تھا، جنہیں اب واپس سوات کے عجائب گھر میں لا کر رکھ دیا گیا ہے۔

سوات میں اب بھی فوج موجود ہےتصویر: AP

2009ء میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد سوات میں عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ ختم کر دیا گیا تھا اور بدھا کے نقش کی حامل چٹان کی تزئین نو کے لیے اطالوی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اب ماہرین آثار قدیمہ کو شکایت ہے کہ آثار قدیمہ کی غیر قانونی کھدائی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔ ٹیکسلا میوزیم کے ایک سینیئر عہدیدار ناصر خان کے بقول آثار قدیمہ کی غیر قانونی کھدائی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ’’ طالبان نے کھدائی کے اس کام پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی اور جو اس میں ملوث پایا جاتا تھا اسے سخت سزا دی جاتی تھی۔‘‘

ماہرین کے بقول انتظامیہ کی بےپروائی، بدعنوانی اور دشوار گزار علاقے کے سبب یہ تاریخی اثاثہ خطرات سے دوچار ہے۔ ذرائع کے مطابق شمال مغربی علاقوں سے غیر قانونی طور پر نکالے گئے تاریخی نوادرات کو پہلے کراچی اسمگل کیا جاتا ہے، جہاں سے پھر انہیں یورپ اور مشرق وسطیٰ لے جایا جاتا ہے۔ حال ہی میں کراچی کے علاقے کورنگی سے ایسے کچھ نوادرات برآمد کیے گئے تھے۔

(sks/ ia (dpa

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں