سوات کا تاریخی عجائب گھر پھر سے آباد
26 نومبر 2013اس طرح اس تاریخی عمارت کو، جو سن 2008ء سے بند چلی آ رہی تھی، پانچ سال بعد آئندہ ماہ کھول دیا جائے گا۔
دہشت گردی سے متاثرہ وادی سوات جہاں اپنی خوبصورتی اور حسین نظاروں کی وجہ سے مشرق کا سوئٹزر لینڈ کہلاتی ہے، وہاں سوات کو تاریخی لحاظ سے بھی کافی اہمیت کی حاصل ہے۔
سوات قدیم زمانے میں ادھیانہ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ مختلف تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ یہ خطہ وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے ملاتا تھا۔ یہاں اب بھی ہزاروں سال پرانے انڈوگریگ، بدھ مت، ہندو شاہی اور گندھارا تہذیب کے آثار جا بجا موجود ہیں۔
سن 1956ء میں اٹالین ارکیالوجیکل مشن نے ڈاکٹر ٹوچی کی قیادت میں سوات میں آثار قدیمہ پر کام شروع کیا اور اسی سال بُت کڑہ کے مقام پر کھنڈرات دریافت کیے گئے۔ اسی دوران سوات کے دیگر علاقوں اوڈیگرام، منگلور، بریکوٹ، جہان آباد اور دیگر علاقوں میں مختلف نوادرات دریافت کیے گئے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق ان نوادرات کی نمائش کے لیے کوئی خاص جگہ موجود نہیں تھی تو سن 1958ء میں اطالوی حکومت اور سوات کے والی میاں گل عبد الحق جہانزیب کی ذاتی دلچسپی سے سوات میں پہلی مرتبہ ایک عجائب گھر تعمیر کیا گیا، جس میں مختلف علاقوں سے دریافت ہونے والے نوادرات رکھے گئے۔
زمین سے دریافت ہونے والے نت نئے نوادرات کے اضافے کے ساتھ ساتھ سوات کے عجائب گھر میں مختلف ادوار میں توسیع بھی کی جاتی رہی۔ سوات کے عجائب گھر میں ان نوادرات کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے نہ صرف سیاح آتے تھے بلکہ بڑی تعداد میں آرکیالوجی اور تاریخ کے طلباء بھی یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جاپان، کوریا، بھوٹان، نیپال اور تھائی لینڈ وغیرہ سے بدھ مت کے پیروکار بھی عبادت کے لیے ان علاقوں میں آتے تھے، جو سوات کی سیاحتی انڈسٹری کے لیے کافی سود مند ثابت ہوا کر تا تھا۔
سن 2005ء میں پاکستان میں آنے والے تاریخی زلزلے میں سوات کے عجائب گھر کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ بعد ازاں جب 2008ء میں سوات میں دہشت گردی نے زور پکڑ لیا تو دیگر املاک کے ساتھ ساتھ سوات کے اس عجائب گھر کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ رہی سہی کسر سن 2009ء میں ہونے والے ایک خودکش حملے نے پوری کر دی۔ عجائب گھر کے سامنے واقع سڑک پر ہونے والے اِس خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں عجائب گھر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
اس حملے کے بعد سے عجائب گھر کو مستقل طور پر بند کر دیا گیا اور یہاں موجود نوادارات کو پشاور منتقل کر دیا گیا کیونکہ کشیدہ حالات کے دوران عمارت کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ان نوادرات کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔
سن 1956ء سے سوات میں سرگرم عمل اٹالین آرکیالوجیکل مشن نے فروری 2011ء میں پاکستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ اور عجائب گھر کے ساتھ مل کر سوات کے اس میوزیم کی دوبارہ بحالی کا کام شروع کیا اور بیس ماہ کے اندر اندر نہ صرف اس کی تعمیر مکمل کی گئی بلکہ اس کو وسیع بھی کیا گیا۔
عجائب گھر کی یہ نو تعمیر شدہ عمار ت زلزلے سے محفوظ ہونے کے ساتھ خاصی روشن بھی ہے۔ اب بجلی نہ بھی ہو تو اس میں خاصی روشنی ہوتی ہے۔ سوات میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لُکا ماریا اولیوری کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’’عجائب گھر کی تباہ حال عمارت کو پہلے گرایا گیا اور بعد میں نئے تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا۔ عجائب گھر کی تعمیر پر کل سات لاکھ یورو کی لاگت آئی ہے جبکہ پشاور یونیورسٹی کے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ نے میوزیم کی تعمیر اور ماسٹر پلان بنانے میں معاونت کی۔
ڈاکٹر لُکا ماریا نے مزید کہا :’’ میوزیم کی تعمیر سے نہ صرف آرکیالوجی اور تاریخ کے طلباء مستفید ہوں گے بلکہ یہاں کی سیاحتی انڈسٹری کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔‘‘
سوات کا تاریخی عجائب گھر پاکستان کے بہترین عجائب گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس عجائب گھر میں اس وقت گندھارا تہذیب، بدھ مت، انڈو گریک، ہندو شاہی اور سوات کے پہلے اسلامی دور کے ہزاروں کی تعداد میں نوادرات رکھے گئے ہیں۔
عجائب گھر کی ایک گیلری میں سوات کی ثقافت اور ایک میں سوات سے متعلق قدیم پینٹنگز رکھی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے آرکیالوجی اور میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نسیم اس عجائب گھر کی تعمیر نو کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’میوزیم کی دوبارہ تعمیر سے یہاں کے لوگ اپنی تاریخ کو جان پائیں گے اور یہاں کی سیاحتی انڈسٹری کو بھی کافی فائدہ پہنچے گا ۔ روم حکومت کے تعاون سے عجائب گھر کی دوبارہ تعمیر ہوئی ہے، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ آرکیالوجی کا شعبہ کسی علاقے میں سیاحت کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، جہاں پر آرکیالوجی نہ ہو وہاں کی سیاحت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ بہت جلد سوات کے عجائب گھر کو لوگوں کے لیے کھول دیا جائے گا اور امید ہے کہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے لوگ بھی عجائب گھر کا رخ کریں گے، جس سے سوات کی معیشت بہتر ہو گی۔‘‘
تاریخ اور ثقافت کے ماہرین کے مطابق کسی قوم کی تہذیب و ثقافت اور اس کے ماضی میں آنے والی نسلوں کے لیے بے پناہ علم اور عبرت پنہاں ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سوات میں آثار قدیمہ کے ماہر فضل خالق کا کہنا ہے: ’’میوزیم صرف ایک عمارت کا نام نہیں اور نہ ہی یہ صرف پرانے نوادرات رکھنے کی جگہ ہے بلکہ میوزیم اپنے اندر ایک مکمل درسگاہ ہوتے ہیں، جہاں لوگ اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ یہاں پر آئے ہوئے لوگ قدیم نوادرات اور تاریخ سے اپنے آباؤ اجداد کے رہن سہن اور کارناموں کے بارے میں جانتے ہیں اور ان کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
آثار قدیمہ اور تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سوات میں عجائب گھر کی بندش سے جہاں تاریخ اور آرکیالوجی کے طلباء کی پڑھائی میں نقصان ہو رہا تھا، وہاں سیاحتی حوالے سے معیشت بھی کافی متاثر ہو رہی تھی۔ عجائب گھر کی دوبارہ تعمیر سے طلباء کے ساتھ ساتھ سوات کے معیشت کو بھی یقینی فائدہ ہوگا۔