سوات کے باشندے ’فوج اور طالبان دونوں‘ سے ناراض کیوں ہیں؟
14 اکتوبر 2022
سوات میں ایک سکول وین پر ہوئے حالیہ جان لیوا حملے نے اس علاقے میں طالبان کے دوبارہ فعال ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ سوات میں طالبان کی ممکنہ واپسی کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ بھی کیا ہے۔
اشتہار
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک سوات کی وادی طالبان کے زیر قبضہ تھی، جنہوں نے وہاں جابرانہ اقدامات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر بھی مکمل پابندی لگا دی تھی۔ سوات کا علاقہ جس کی سرحد پڑوسی ملک افغانستان سے بھی ملتی ہے، اب شاید بہتر طور پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
ایک دہائی قبل جب ملالہ پندرہ برس کی تھیں، تو طالبان نے انہیں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ سوات میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی ملالہ یوسف زئی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ایک توانا آواز تھیں۔ طالبان نے سن دو ہزار بارہ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملالہ کو سیکولرزم کو فروغ دینے کی پاداش میں حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سوات کی وادی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک مضبوط گڑھ رہی ہے۔ پاکستانی طالبان کا اٖفغان طالبان سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں مگر وہ ایک ہی جیسے نظریات رکھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے سوات سے خاتمے کے لیے پاکستانی فوج نے وہاں سن دو ہزار نو میں ایک بڑا فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔
’طالبان کی واپسی‘
سوات میں پشتون قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں حکومت پر طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنے کا الزام لگا رہی ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ یہ صورت حال سوات کو دوبارہ دہشت گردی کا شکار بنا سکتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے شہری حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف ہیں۔ ٹی ٹی پی نے سن دو ہزار چودہ میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ایک سو بتیس کم سن طلبا کو ہلاک کر دیا تھا۔
حکومت طالبان کی سوات میں قابل ذکر تعداد میں موجودگی کے حالیہ خدشات کو مسترد کرتی ہے۔ تاہم گزشتہ برس مشتبہ عکسریت پسندوں کی طرف سے پولیس پر حملے کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی تھی کہ سوات میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی خواہش مند ٹی ٹی پی کی اس علاقے میں واپسی ہو گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ طالبان نے گزشتہ ماہ ستمبر میں کیے گئے ایک بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی، جس میں ایک حکومت نواز مقامی ملیشیا کے کمانڈر ادریس خان دو پولیس اہلکاروں، دو ذاتی محافظوں اور تین مزدوروں سمیت مارے گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک ہفتہ قبل سوات میں ایک اسکول وین پر حملے کے بعد لوگوں نے علاقے میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیے تھے۔ ان میں سے ایک احتجاج تو چالیس گھنٹے سے بھی زائد تک جاری رہا تھا۔ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب ملالہ یوسف زئی نے پاکستانی سیلاب زدگان سے ہمدردی کے لیے صوبہ سندھ کا دورہ کیا۔
ناراضی کے اسباب
سوات کے علاقے مٹہ کی رہائشی چھبیس سالہ مروت سلیم کا کہنا ہے کہ لوگ حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لیے جانے کی وجہ سے شدید غصے میں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ان کے لیڈر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں یا پھر وہ ان سے خوف زدہ ہیں اور شاید اسی وجہ سے حکومت ان عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی عدم فعالیت نے خاص طور پر خواتین میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ مروت سلیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے نفسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے تاہم انہیں خدشہ ہے کہ اگر طالبان کی واپسی ہو گئی تو ان کی بہنیں اور کزن اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ماضی میں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے تھے اور حکومت نے ان کی مدد نہیں کی تھی۔ اب ایک بار پھر حکومت عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے نظریں چرا رہی ہے اور اسی لیے عوام حکومت سے ناراض اور ناخوش ہیں۔‘‘
پینتالیس سالہ بی بی حسینہ سوات کے ایک مقامی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ اس وادی میں ایک اسکول وین پر حالیہ حملے نے ماضی کی بھیانک یادیں تازہ کر دیں اور عام شہری ایک بار پھر شدید خوف کا شکار ہو گئے۔ بی بی حسینہ نے بتایا، ''سوات کے لوگوں نے اس لیے احتجاج کیا کہ وہ اپنے بچوں، خاندانوں، کاروبار اور اپنی سلامتی کے بارے میں پریشان ہیں۔‘‘
دھوکے کا احساس
سن دو ہزار نو کے فوجی آپریشن کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے مخلتف حصوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ انہیں اپنے گھروں کو وا پسی کی اجازت چند ماہ بعد فوجی کارروائی کے خاتمے کے اعلان کے بعد دی گئی تھی۔
مٹہ ہی کے ایک رہائشی ادریس علی شاہ کا کہنا تھا کہ عوام اس لیے بھی غصے میں ہیں کہ انہیں متضاد اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ادریس شاہ نے کہا کہ پہلے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ اس علاقے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن پھر عوام نے ٹارگٹ کلنگ کی ایک ایسی لہر دیکھی، جس میں آٹھ سو سے زائد سیاسی اور امن کے خواہش مند کارکنوں کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ (طالبان) سفاک قاتل ہیں اور اب عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی ان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھتہ خوری اور عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق تمام اطلاعات کو نظر انداز کیا گیا، تو یوں حکومت، ریاست اور فوج سے مایوسی ایک قدرتی بات ہے۔‘‘
اشتہار
نقصان کیا ہو سکتا ہے؟
سن دو ہزار نو میں فوجی آپریشن کے اختتام کے بعد سے سوات میں کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ساتھ ہی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں نے بھی اس خوبصورت وادی کی سیر کے لیے آنا شروع کر دیا ہے۔ اس صورتحال سے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
سوات کے ایک مقامی باشندے اور پشاور یونیورسٹی کے علاقائی اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق لوگوں نے سوات میں اپنے اپنے کاروبار، مکانات، مارکیٹوں اور دیگر جگہوں کی تعمیر میں کروڑوں بلکہ ممکنہ طور پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کے بقول اب یہ سب کچھ خطرے میں ہے۔
ملالہ ساڑھے پانچ سال بعد سوات میں
نوبل امن انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی برسوں بعد ہفتہ اکتیس مارچ کو واپس اپنے آبائی شہر سوات پہنچ گئیں، جہاں قریب چھ برس قبل پاکستانی طالبان نے ایک حملے میں انہیں زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پانچ برس کا طویل انتظار
ملالہ یوسف زئی ہفتہ کے روز صبح ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی علاقے سوات پہنچیں۔ اس موقع پر اُن کے والد ضیاءالدین یوسفزئی،والدہ تورپیکئی، دونوں بھائی اور وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
پرانا کمرہ اور پرانی یادیں
سن 2012 سے برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی ساڑھے پانچ سال بعد جب آبائی شہر میں واقع اپنے گھر پہنچیں تو آبدیدہ ہو گئیں۔ ملالہ کے خاندانی ذرائع کے مطابق ملالہ کے والدین اور بھائی بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔ ملالہ یوسف زئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے کمرے میں قیام بھی کیا۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
اسکول کا دورہ اور پرانی سہیلیوں سے ملاقات
سوات پہنچنے پر مقامی لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا پرتپاک استقبال کیا اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اپنے آبائی گھر میں کچھ دیر قیام کے بعد ملالہ اپنے اسکول بھی گئیں، جہاں اپنی سہیلیوں سے ملاقات کی اور ان سے باتیں کیں۔ ملالہ کے دورے کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ میڈیا کو بھی دور رکھا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
’واپس ضرور آؤں گی‘
ملالہ اپنے مختصر دورہ سوات کے دوران کیڈٹ کالج بھی گئیں، جہاں پر کالج کے پرنسپل اور دیگر اسٹاف نے ان کا بھر پور استقبال کیا۔ ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج میں طلباء سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا سوات آنے کا پختہ ارادہ ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس سوات آئیں گی، ’’اس وادی جیسی خوبصورت ترین وادی دنیا میں کہیں بھی نہیں، سوات آکر بہت خوشی محسوس کررہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
’اپنی ثقافت پر فخر ہے‘
ملالہ یوسف زئی نے کیڈٹ کالج کی وزیٹر بک میں اپنے پیغام میں لکھا کہ ساڑھے پانچ سال بعد اپنے پہلے دورہ سوات کے موقع پر وہ بہت خوش ہیں، ’’ مجھے اپنی سرزمین اور یہاں کی ثقافت پر فخر ہے، کیڈٹ کالج بہت ہی خوبصورت ہے اور میں کالج کے پرنسپل اور اسٹاف کی انتہائی مشکور ہوں۔‘‘
تصویر: DW/Adnan Bacha
’ملالہ کے منتظر تھے‘
لوگوں کی اکثریت ملالہ کی پاکستان آمد سے نہ صرف خوش ہے بلکہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ خوش آمدید بھی کہہ رہی ہے۔ تاہم دوسری طرف کچھ حلقے ملالہ کے دورہ سوات کو بھی تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ سماجی کارکن ڈاکٹر جواد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں ملالہ پر فخر ہے، ملالہ کی جدوجہد نے یہاں پر بچیوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔
تصویر: DW/Adnan Bacha
ہمت نہیں ہاری
ملالہ یوسفزئی کو 2012ء میں سوات ہی میں تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں نے ایک مسلح حملے کے دوران سر میں گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور اس حملے کے چند روز بعد ہی انہیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
ہمت و بہادری کی مثال
پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ملالہ یوسفزئی کو ہمت، بہادری اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی علامت قرار دیتے ہوئے انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس کا کئی دیگر شواہد کے علاوہ ایک ثبوت انہیں دیا جانے والا امن کا نوبل انعام بھی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Garrido
8 تصاویر1 | 8
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بظاہر حکومت ان عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، جو موبائل فون پر دھمکیاں دے کر لوگوں سے بھتہ طلب کر رہے ہیں۔ سرفراز خان کے مطابق، ''صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان تک نے بھی بھتہ دیا ہے اور حکومت نے پھر بھی تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘‘
گمراہ کن دعوے
پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے نے گزشتہ ماہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سوات اور دیر کے درمیان 'پہاڑی چوٹیوں پر چند مسلح افراد کی نقل و حرکت‘ کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس ادارے نے اس بات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا کہ یہ مسلح افراد بے قابو اور بے خطر گھوم رہے تھے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''بظاہر یہ چند افراد اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کی غرض سے افغانستان کے راستے یہاں گھس آئے ہیں۔ ان کی پہاڑوں پر محدود موجودگی اور نقل وحرکت پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا کہ عکسریت پسندوں کی علاقے میں موجودگی کو سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے خود کو مضبوط محسوس کر رہے ہیں۔
معاشی بدحالی کے شکار سوات کے مزدور
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پخونخوا کی وادی سوات میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور کم اُجرت ملنے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے سے بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ وادی طویل عرصے تک دہشت گردی سے متاثرہ رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
کام ملتا نہیں اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
وادی سوات میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کئی ہفتوں تک کام نہیں ملتا اور وہ سارا دن کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ مینگورہ کے رہائشی مزدور نور زمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ دوسرا ہفتہ ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں ملا جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ نور زمان کے مطابق لوگوں سے اُدھار لے کر گھر کا چولہا چل رہا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
دہشت گردی، قدرتی آفات اور اب فاقے
دہشت گردی، فوجی آپریشن اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال وادی سوات کی معیشت تاحال اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی جس کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج اور مزدور فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
سخت محنت اور کم اُجرت،کیا خریدوں؟
مینگورہ کے ایک اور مزدور عطاءالرحمن نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے تین چار سو روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے، ’’ان پیسوں سے گھر کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل؟ گھریلوں اخراجات پوری کریں یا بچوں کی اسکول کی فیس کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے؟
روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ آج پوری دنیا میں اُن کے نام پر چھٹی منائی جا رہی ہے۔ حسین علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں علم نہیں کہ آج کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے، ’’ہم تو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
بارہ افراد کا واحد کفیل
کامران خان چائے کے ہوٹل میں روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے اور گھر کے دیگر بارہ افراد کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ کامران کے مطابق روزانہ پانچ سو روپے ملتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ’’مہنگائی میں روزبروز اضافے اور کم اجرت سے زندگی جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
مزدوروں کا استحصال اور قانون سازی
ملک بھر کی طرح وادی سوات کے مزدوروں کے استحصال میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کےمطابق مؤثر قانون سازی نہ ہونے اور حکومتی عدم توجہی کے باعث مزدور طبقہ غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ اگر مؤثر قانونی سازی کی جائے اور اس پر فوری عمل کیا جائے تو اس طبقے کی محرومیاں دور ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مفلوج کاروبار زندگی
وادی سوات میں اس وقت معاشی حالات ابتر ہیں جس کے باعث مزدوروں کی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہے، مینگورہ کے ایک کاروباری شخص اکرام اللہ نے بتایا کہ جب حالات بہتر تھے تو کاروبار بھی منافع بخش تھا مگر اب ہم اپنا خرچہ برداشت نہیں کرپاتے تومزدوروں کو کہاں سے دیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
کارخانے بند، مزدور بے روزگار
سوات میں ریاستی دور سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں چل رہی تھیں جن میں سلک اور کاسمیٹک انڈسٹریز نمایاں تھیں، اب وہ کارخانے بھی زیادہ تر بند ہیں اور اس میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور بے روزگار ہیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
8 تصاویر1 | 8
پشتون بہار
چند تجزیہ کارو ں کا خیال ہے کہ پشتون قوم پرست پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سوات میں جاری مظاہروں کی روح رواں جنگ مخالف پشتون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم ہے۔ پاکستانی حکام پی ٹی ایم سمیت لبرل پشتون گروپوں کو کافی عرصے سے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے آئے ہیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی عزیز اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ پروپیگنڈا ہے کہ فوج یا سکیورٹی ادارے طالبان کو واپس لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''فوج نے سوات اور ملک کے دیگر حصوں سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اگر آج سوات میں امن ہے، تو یہ صرف فوج کی وجہ سے ہے۔ فوج کے خلاف پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے، جو قابل مذمت ہے۔‘‘
’حکومت سے تو کوئی ناراض نہیں‘
عزیز اللہ خان نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ سوات کے عوام حکومت سے تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرا تعلق صوبائی حکومت سے ہے اور میں پوری وادی یں گھومتا ہوں۔ میں نے تو فوج یا حکومت کے خلاف کوئی ناراضی نہیں دیکھی۔‘‘ انہوں نے سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی سے متعلق دعووں کو بھی مسترد کیا۔
رکن صوبائی اسمبلی عزیز اللہ خان نے کہا، ''میں آپ کو پوری وادی سوات میں لے جاتا ہوں اور آپ کو ایک بھی عسکریت پسند نظر نہیں آئے گا۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ کچھ جرائم پیشہ افراد طالبان کا نام استعمال کر کے بھتہ خوری کے لیے فون کالیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کے کسی لیڈر یا قانون ساز نے کوئی بھتہ نہیں دیا۔‘‘
ش ر / م م (ایس خان)
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
تصویر: DW/Danish Babar
خوش گوار موسم اور فطری حسن
پاکستان کے شمالی علاقے فطری حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے کافی اونچائی کی وجہ سے ان علاقوں میں گرمیوں کے دوران موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
سیاحت میں اضافہ
ماضی قریب میں ناسازگار حالات، شدت پسندی کے واقعات اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ ان خوبصورت علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ تاہم محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال لگ بھگ سات لاکھ سیاح ان علاقوں میں آئے۔
تصویر: DW/Danish Babar
دشوار گزار مقامات کے لیے جیپوں کا استعمال
ناران، کاغان، شوگران، کالام اور اپر دیر کے پہاڑی علاقوں تک پہنچنے کے لیے سیاح جیپ اور دیگر فور وہیل گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ پہاڑی اور خراب سڑکوں کی وجہ سے عام چھوٹی گاڑیوں کی مدد سے ان علاقوں تک کا سفر مشکل ہوسکتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
چھٹیوں کے دوران سیاحوں کی تعداد میں اضافہ
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں جون، جولائی کے مہینوں میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس موسم اور خصوصاﹰ مذہبی تہواروں اور قومی چھٹیوں کے دنوں میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں شہری ملک کے شمال میں واقع پر فضا مقامات پر تفریح کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
قدرتی چشمے اور گلیشیئرز
ناران اور کاغان کے سفر کے دوران اکثرمقامات پر راستے میں قدرتی چشمے اور گلیشئرز کا پانی بہتا نظر آتا ہے۔ مقامی دکاندار اس پانی کو مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے بھی استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹراؤٹ مچھلی ایک نعمت
شمالی علاقوں کے دریاؤں میں موجود ٹراؤٹ مچھلی سیاحوں اور مقامی مچھیروں دونوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ عبداللہ کے مطابق تیز بہنے والے ٹھنڈے پانی میں ٹراؤٹ کا شکار کسی خطرے سے خالی نہیں۔ سیاحوں کو یہ مچھلی دو سے ڈھائی ہزار روپے فی کلو فروخت کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
لذیز ٹراؤٹ مچھلی
ٹراؤٹ کی افزائش کے لیے انتہائی ٹھنڈا پانی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ناران میں گلیشئرز کا پانی ان کے افزائش نسل کے لیے کافی موزوں ہے لہٰذا مقامی لوگوں نے ٹراؤٹ کے فارمز بھی بنا رکھے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹینٹ ویلیجز
ناران اور کاغان میں انتظامیہ نے رش کے دنوں میں سیاحوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹینٹ ویلیجز یا خیمہ بستیاں بھی قائم کی ہیں جہاں مناسب قیمت میں سیاحوں کو قیام کے لیے اچھی جگہ مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
’سیاحت تازہ دم کر دیتی ہے‘
سیالکوٹ کے رہائشی محمد عاصم پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منانے وادی کاغان آئے۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک پرسکون جگہ ہے۔ تازہ دم ہونے کے لیے ان علاقوں کی سیر بہت ضروری ہے۔‘‘
تصویر: DW/Danish Babar
وادی کاغان کا علاقہ شوگران
وادی کاغان کے علاقہ شوگران میں پھیلے سر سبز گھاس کے لان (چمن) سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے قریب 2362میٹر کی بلندی پر واقع یہ وادی دلفریب نظاروں کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
جھیل سیف الملوک اور پریوں کی داستانیں
وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع جھیل سیف الملوک کسی عجوبے سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ پریوں کی داستانوں کی وجہ سے مشہور یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباﹰ 3240 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آنسو جھیل تک سفر گھوڑے یا خچر کے ذریعے ہی ممکن
سالہاسال برف جمی رہنے کی وجہ سے ناران کے اکثر علاقوں میں لوگ گھوڑوں یا پھر خچروں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے سیف الملوک جھیل سے آنسو جھیل تک کا گھوڑوں پر چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کافی پرلطف ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آبشاروں کا سحر
شمالی علاقوں میں جہاں دریاؤں کا شور لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے تو دوسری جانب بلندوبالا پہاڑوں سے گرتیں قدرتی آبشاریں بھی سیاحوں کے لیے کسی سحرسے کم نہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
برفباری کے سبب ناقابل رسائی
پاکستان کے شمال علاقوں میں اکثر سیاحتی مقامات سردیوں میں شدید برف باری کی وجہ سے قریب آٹھ ماہ تک نقل حرکت کے قابل نہیں رہتے۔ اور اسی باعث سردیوں میں سیاحوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ۔ مقامی لوگ سردیوں کے دوران عارضی دکانوں کو بند کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹورازم کے فروغ کے لیے فنڈز مختص
خیبرپختونخوا میں ٹورازم کے فروع اور ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ناران، کاغان، شوگران اور صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے خاطرخوا فنڈز مختص کیے ہیں۔