مشہور ویڈیو گیم ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ میں نازی دور کے سواستیکا کو ایک مثلث میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ تمام ویڈیو گیمز کی منظوری جرمنی کا سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Nelson
اشتہار
دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرنے والی ایک مشہور ویڈیو گیم ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ کے جرمن ماڈل کو ملکی دستوری پابندیوں کے تحت تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس گیم میں نازی دوری حکومت کے ایڈولف ہٹلر کی جگہ ایک ڈکٹیٹر دکھایا گیا ہے، اور یہ مونچھوں کے بغیر ہے۔ اس کردار کا نام ہَیر ہائیلر رکھا گیا ہے۔
اس گیم کو سارے جرمنی میں سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) کی پیشگی منظوری کے بعد ریلیز کیا گیا ہے۔ ایک جرمن وکیل کرسٹیان زولمیکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی میں نازی دور کی علامات و نشانات کو ظاہر کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور کمپیوٹر گیمز کے لیے سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) کی فراہم کردہ ہدایات اور رہنما ضوابط بھی معاملے کی پیچیدیگی کو ختم کرنے میں مدد گار نہیں ہوتے۔
زولمیکے کے مطابق ایسے نشانات و علامات پر کئی ممالک میں کوئی پابندی یا سزا موجود نہیں ہے۔ وکیل کرسٹیان زولمیکے کا کہنا ہے کہ ایسی علامات آسٹریا میں بھی ممنوع ہیں لیکن وہاں سزائیں سخت نہیں ہیں۔ جرمنی میں سواستیکا اور نازی دور کی علامات کو دستور کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
ایک مشہور ویڈیو گیم ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ کے جرمن ماڈل کو ملکی دستوری پابندیوں کے تحت تبدیل کر دیا گیا ہےتصویر: YouTube/DerSorbus
ایسے نشانات اور علامات کا کھلے عام ظاہر کرنا یا ایسی علامات کے سامان کی فروخت ممنوع ہے۔ اسی طرح نازی دور کے مخصوصی فوجی سیلیوٹ کا کھلے عام مظاہرہ کرنا بھی خلافِ قانون ہے۔ اسی طرح جرمنی کے اندر رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایسے خلافِ ضابطہ نشانات کو پوسٹ کرنا بھی ایک تعزیری فعل ہے۔ ان کے ظاہر کرنے پر تین برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں سواستیکا اور نازی دور کی علامات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے، اگر اُن کو شہری بہبود اور تعلیم کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔ یہ اِس صورت میں بھی جائز ہے جب عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ علامات دستور کے تحت ممنوع ہیں اور فوجداری ضوابط کے تحت ان کا کھلے عام استعمال ایک جرم بن سکتا ہے۔
اسی دستوری رعایت کے نتیجے میں کئی ہالی ووڈ کی مشہور فلموں کی جرمن سینما گھروں میں نمائش کی گئی ہے۔ ان میں انگلوریئس باسٹرڈ اور ایمیزون کی ’دی مین اِن کاسل‘ وغیرہ خاصی اہم ہیں۔ ان فلموں میں سواستیکا اور نازی دور کے نشانات و علامات کا بےدریغ استعمال دیکھا گیا لیکن موضوع کے اعتبار سے یہ فلمیں نازی دور کی نفی کرتی تھیں۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔