1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سواستیکا اور نازی نشانات پر جرمن کنفیوژن

15 اگست 2018

مشہور ویڈیو گیم ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ میں نازی دور کے سواستیکا کو ایک مثلث میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ تمام ویڈیو گیمز کی منظوری جرمنی کا سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) دیتا ہے۔

Game Wolfenstein
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Nelson

دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرنے والی ایک مشہور ویڈیو گیم  ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ کے جرمن ماڈل کو ملکی دستوری پابندیوں کے تحت تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس گیم میں نازی دوری حکومت کے ایڈولف ہٹلر کی جگہ ایک ڈکٹیٹر دکھایا گیا ہے، اور یہ مونچھوں کے بغیر ہے۔ اس کردار کا نام ہَیر ہائیلر رکھا گیا ہے۔

اس گیم کو سارے جرمنی میں  سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) کی پیشگی منظوری کے بعد ریلیز کیا گیا ہے۔ ایک جرمن وکیل کرسٹیان زولمیکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی میں نازی دور کی علامات و نشانات کو ظاہر کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور کمپیوٹر گیمز کے لیے سوفٹ ویئر سیلف ریگولیشن بورڈ (USK) کی فراہم کردہ ہدایات اور رہنما ضوابط بھی معاملے کی پیچیدیگی کو ختم کرنے میں مدد گار نہیں ہوتے۔

زولمیکے کے مطابق ایسے نشانات و علامات پر کئی ممالک میں کوئی پابندی یا سزا موجود نہیں ہے۔ وکیل کرسٹیان زولمیکے کا کہنا ہے کہ ایسی علامات آسٹریا میں بھی ممنوع ہیں لیکن وہاں سزائیں سخت نہیں ہیں۔ جرمنی میں سواستیکا اور نازی دور کی علامات کو دستور کے منافی قرار دیا گیا ہے۔

ایک مشہور ویڈیو گیم  ’’وولفنسٹائن ٹُو‘ کے جرمن ماڈل کو ملکی دستوری پابندیوں کے تحت تبدیل کر دیا گیا ہےتصویر: YouTube/DerSorbus

ایسے نشانات اور علامات کا کھلے عام ظاہر کرنا یا ایسی علامات کے سامان کی فروخت ممنوع ہے۔ اسی طرح نازی دور کے مخصوصی فوجی سیلیوٹ کا کھلے عام مظاہرہ کرنا بھی خلافِ قانون ہے۔ اسی طرح جرمنی کے اندر رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایسے خلافِ ضابطہ نشانات کو پوسٹ کرنا بھی ایک تعزیری فعل ہے۔ ان کے ظاہر کرنے پر تین برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں سواستیکا اور نازی دور کی علامات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے، اگر اُن کو شہری بہبود اور تعلیم کے لیے استعمال کیا جا رہا ہو۔ یہ اِس صورت میں بھی جائز ہے جب عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ علامات دستور کے تحت ممنوع ہیں اور فوجداری ضوابط کے تحت ان کا کھلے عام استعمال ایک جرم بن سکتا ہے۔

اسی دستوری رعایت کے نتیجے میں کئی ہالی ووڈ کی مشہور فلموں کی جرمن سینما گھروں میں نمائش کی گئی ہے۔ ان میں انگلوریئس باسٹرڈ اور ایمیزون کی ’دی مین اِن کاسل‘ وغیرہ خاصی اہم ہیں۔ ان فلموں میں سواستیکا اور نازی دور کے نشانات و علامات کا بےدریغ استعمال دیکھا گیا لیکن موضوع کے اعتبار سے یہ فلمیں نازی دور کی نفی کرتی تھیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں