’سورج‘ ہرہنہ تصویر کے بغیر بھی نکلے گا
20 جنوری 2015
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے دا سن کی اس روایت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ دی سن نے اس پرانی روایت کو ختم کرتے ہوئے اب خواتین کی برہنہ تصاویر کی اشاعت روک دی ہے۔
میڈیا ٹائکون روُپرٹ مرڈوخ کے ادارے نیوز یوکے ہی کے زیرانتظام شائع ہونے والے اخبار دا ٹائمز نے بتایا کہ گزشتہ جمعے کو روزنامہ دی سن کا وہ آخری شمارا شائع ہوا، جس کے تیسرے صفحے پر ایک خاتون کی برہنہ تصویر تھی اور اب مستقبل میں یہ اخبار اپنی اس 44 سالہ پرانی روایت پر عمل نہیں کرے گا۔
دی ٹائمز کے مطابق، ’دا سن اب اپنے صفحہ نمبر تین پر برہنہ ماڈلز کی تصاویر شائع نہیں کرے گا۔‘ اس اخبار نے مزید کہا کہ گزشتہ برس اس اخبار کے ارب پتی مالک مرڈوخ نے اس روایت کو ’فرسودہ‘ قرار دیا تھا۔
دوسری جانب برطانیہ میں دو اعشاریہ دو ملین کی تعداد میں شائع ہونے والے دا سن نے اس حوالے سے کسی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس اخبار کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ ڈیلن شارپ نے ان خبروں کو ’افواہیں‘ قرار دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دا سن نے فی الحال اپنے صفحہ نمبر تین پر ہونے والی کسی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے ان خبروں کی نہ تو تائید کی ہے اور نہ ہی تردید۔ اس اخبار کے پیر کے روز شائع ہونے والے شمارے میں تیسرے صفحے پر ایک لباسِ شب زین تن کیے ایک ماڈل دکھائی دے رہی ہے۔ منگل کے روز کے شمارے میں دبئی کے ساحل پر ایک خاتون بکنی پہنے چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تحریر ہے کہ بے ’واروِک سے تعلق رکھنے والی لُوسی‘ کی بے لباس تصاویر کے لیے آن لائن ایڈیشن دیکھیے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ اخبار ممکنہ طور پر ان برہنہ تصاویر کی کاغذ پر اشاعت روک کر اپنی توجہ انٹرنیٹ کی جانب مبذول کر رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ اس اخبار نے سن 1970ء میں پہلی مرتبہ اپنے صفحہ نمبر تین پر 20 سالہ جرمن ماڈل اشٹیفانی راہن کی برہنہ تصاویر شائع کی تھیں اور پھر یہ اس اخبار کی روایت بن گئی۔
اسی اخبار نے اسی کی دہائی میں سمانتھا فاکس اور نوے کی دہائی میں کیٹی پرائز کی برہنہ تصاویر شائع کیں اور یہ دونوں لڑکیاں بعد میں ماڈلنگ کے شعبے میں معروف ترین خواتین بن گئیں۔ اس اخبار پر گزشہ طویل عرصے سے جنسی امتیاز کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔