1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوشل میڈیا سائٹس نے ہانگ کانگ کے متعلق ڈیٹا تک رسائی روک دی

7 جولائی 2020

چین کے متنازعہ نئے سکیورٹی قانون پر بڑھتی تشویش کے پیش نظر گوگل، فیس بک اور ٹویٹر جیسی معروف سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں نے ہانگ کانگ کی طرف سے صارفین کا ڈیٹا طلب کرنے کی درخواست پر فی الوقت عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Hongkong Protestierende mit Smartphone
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Yu

ٹویٹر، فیس بک اور گوگل جیسی سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹوں کا کہنا ہے کہ چین نے ہانگ کانگ سے متعلق جو نیا اور متنازعہ سکیورٹی قانون وضع کیا ہے اس سے اپوزیشن سمیت کئی حلقے تشویش میں مبتلا ہیں اور اسی وجہ سے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے ہانگ کانگ کی انتظامیہ کی درخواستوں پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فیس بک جو واٹس ایپ اور انسٹاگرام کا بھی مالک ہے، نے پیر چھ جولائی کو اس تعلق سے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ''ہانگ کانگ کی حکومت اور پولیس کی جانب سے صارفین کے ڈیٹا کے تجزیے کے لیے جو بھی درخواستیں پہلے سے آئی ہوئی تھیں اس پر ہم نے مزید غور و فکر کرنے تک عمل درآمد روک دیا ہے۔''

اگر حکومت سکیورٹی کے حوالے سے اپنے ملک کی عوام کے بارے میں ڈیٹا طلب کرے تو قانونی طور پر ان ویب سائٹوں کو صارفین کا ڈیٹا تجزیے کے لیے حکام کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ ہانگ کی انتظامیہ بھی وقتاً فوقتاً ایسا کرتی رہی ہے تاہم ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر صارفین کا ڈیٹا طلب کرنے میں بھارت سب سے آگے ہے۔

گوگل اور ٹویٹر نے بھی گزشتہ ہفتے ہانگ کانگ سے متعلق جب متنازعہ سکیورٹی قانون کو نافذ کیا گیا تھا تو صارفین کے ڈیٹا سے متعلق رسائی کے لیے حکومت نے جو درخواستیں دی تھیں اس پر عمل روک دیا تھا۔ ٹویٹر نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ اس متنازعہ سکیورٹی قانون کے نفاذ پر گہری تشویش پائی جاتی اوراس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

تصویر: Reuters/T. Siu

بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ قانون گزشتہ برس کی طرز پر ہونے والے جمہوریت نواز پرتشدد مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ قانون دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر شرپسندی کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بیرونی طاقتوں کے سات مل کر علیحدگی پسندی، دہشتگردی، بغاوت اور رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور ایسا کرنے والے کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔

چینی پارلیمان نے ہانگ کانگ کے لیے اس متنازعہ سکیورٹی قانون کو گزشتہ ہفتے منظوری دی تھی۔ تاہم گزشتہ برس اس قانون پر بحث شروع ہونے کے بعد سے ہی جمہوریت نوازو ں کی طرف سے ہانگ کانگ میں کئی بار پرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔

  چین میں گوگل، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹوں پر پابندی عائد ہے تاہم چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ میں ان کی اجازت ہے۔ جب سے سکیورٹی کا نیا قانون آیا ہے تبھی سے ہانگ کانگ کے بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے خوف کے سبب اپنے

 اکاؤنٹ کو یا تو ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیا ہے یا پھر اس قانون کی نظر میں 'قابل اعتراض فوٹو یا حساس مواد کو کو مٹانے لگے ہیں۔

فیس بک نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''ہم بنیادی انسانی حقوق آزادی اظہار میں یقین رکھتے ہیں اور ہم لوگوں کے آزادی اظہار کے حق کی حمایت بھی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی بات کا بلا خوف و خطر اظہار کر سکیں۔''

ٹویٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''جو افراد آزادی اظہار کے لیے ہماری سروسز کا استعمال کرتے ہیں ٹویٹر ان کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔'' گوگل کا کہنا ہے کہ اس نے ہانگ کی جانب سے کسی بھی ڈیٹا کی درخواست پر فی الوقت عمل کرنا بند کر دیا ہے اور کمپنی نئے قانون سے متعلق اپنا تجزیاتی عمل جاری رکھے گی۔

ص ز / ج ا (اے ایف پی، رؤٹرز، اے پی)

ایغوروں کے حق میں مظاہرہ، ہانگ کانگ پولیس کا طاقت کا استعمال

01:54

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں