سولہ سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی، اسرائیل بھر میں احتجاج
24 اگست 2020
اسرائیل کے ساحلی شہر تل ابیب کے ایک ہوٹل میں 16 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے مبینہ واقعات کے خلاف ہزاروں اسرائیلی سراپاء احتجاج ہیں۔
اشتہار
احتجاجی مظاہرین نے ایک گھنٹہ کام کاج چھوڑ کر ایک علامتی ہڑتال بھی کی۔ اسرائیل میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بنوٹ الٹرناٹیوا‘ نے بتایا کہ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ ہڑتال اسرائیل میں خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف کی گئی تھی۔ مظاہرے میں شریک ایک خاتون ایریل پیلیگ نے بتایا کہ عام شہریوں سمیت تقریباﹰ تیس کمپنیاں اور تنظیمیں اس مظاہرے میں شامل تھیں۔
احتجاج کا مرکز اسرائیلی شہرتل ابیب تھا جہاں ایک ہوٹل میں 16 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ تل ابیب سے شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ اب ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔ اس لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرے میں شریک بیشتر افراد نے سرخ لباس پہنا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتین یاہو نے بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعے کو ‘انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا ہے۔ پولیس نے اس کیس میں ملوث 11 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان مشتبہ افراد میں نو نابالغوں سمیت ہوٹل کی خاتون مینیجر بھی شامل ہے۔
م ش، ب ج (اے ایف پی)
ایشیائی احتجاجی تحریکوں میں خواتین کا قائدانہ کردار
بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان سمیت متعدد ایشائی ممالک میں حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اب خطرات اور حکومتی دباؤ کے باوجود خواتین صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
خواتین ’امتیازی سلوک‘ کے قانون کے خلاف
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’امتیازی سلوک کے حامل‘ نئے شہریت ترمیمی بل نے سول سوسائٹی کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور خواتین ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کے لیے خواتین کی آواز کو دبانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Javed
’فاشزم‘ کے خلاف جنگ
بھارت میں یونیورسٹی کی طالبات سڑکوں پر نکل چکی ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کی سیکولر بھارت میں ’غیرآئینی‘ اقدامات کی مخالفت کی جائے گی۔ یہ مظاہرے صرف شہریت ترمیمی بل ہی نہیں بلکہ فاشسٹ معاشرتی رجحانات، بدانتظامی، مذہبی انتہاپسندی اور پولیس کی بربریت کے خلاف بھی ہیں۔
تصویر: DW/M. Krishnan
حجاب سے لاتعلقی
گزشتہ چند برسوں سے ایران کی قدامت پسند حکومت کو خواتین چیلنج کر رہی ہیں اور ایسے احتجاجی مظاہروں کے دوران حجاب اتارنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ’مغرب سے متاثر‘ ایسی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود خواتین کا مختلف شہروں میں مختلف طریقوں سے احتجاج جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
حکومت کے مدمقابل
سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین کو پدرانہ دباؤ کا سامنا ہے۔ تہران حکومت نے ہمیشہ ایسے مظاہروں کو دبایا ہے، جہاں مساوی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کی جاتی ہو۔ لیکن تمام تر حکومتی حربے خواتین کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Roberson
’اب بہت ہو چکا‘
پاکستان میں جو خواتین مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں، زیادہ تر لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ اور این جی او مافیا‘ سمجھتا ہے۔ ایسے الزامات کے باوجود حالیہ چند برسوں سے ان خواتین کی آواز معاشرے میں سنی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Raza
بڑی سماجی تحریک کی جانب
ابھی تک پاکستان میں موجود خواتین کے حقوق کی تنظیمیں چائلڈ میرج، مساوی حقوق، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ جمہوریت نواز مظاہروں میں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ گزشتہ برس اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کے لیے ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اس کی مثال ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مغرب نے نظرانداز کیا؟
طالبان اور امریکا افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ممکنہ امن ڈیل کے قریب تر ہوتے جا رہے۔ لیکن افغان خواتین پریشان ہیں کہ انہیں حالیہ چند برسوں میں ملنے والی محدود آزادی اور حقوق دوبارہ سلب ہو سکتے ہیں۔