سول نافرمانی کی تحریک، سیاسی جماعتوں کا ردعمل
18 اگست 2014اہم سیاسی جماعتوں کی طرف سے عمران خان کے مطالبات کی مخالفت حکومتی دفاع کے لیے مضبوط سہارا سمجھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مختلف ارکان پارلیمنٹ اسلام آباد بحران کے جلد انجام تک پہنچنے کے لیے پرامید ہوگئے ہیں۔
پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اورعوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ خیبرپختونخوا حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں نے چاربڑی جماعتوں کے اس فیصلے کو حکومتی ساکھ کے لیے مضبوط سہارا جبکہ تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ معروف قانون دان اور پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ کپتان عمران خان دھرنے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے کسی حد تک عمران کے مطالبات کودرست مگران کے طریقہ کار کو غلط قراردیا۔
ایم کیوایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت احتجاج کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے اورسیاسی درجہ حرارت کم کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الٹی میٹم اوردھمکیوں سے صورتحال مشکل ہوگئی ہے تاہم ایم کیو ایم کے قائد کا پیغام طاہرالقادری تک پہنچا دیا گیا ہے۔ حیدرعباس رضوی کا سوال تھا کہ کیا عمران خان کی کال کے بعد کیا خیبرپختونخوا حکومت وفاق کوٹیکس دینا بند کردے گی؟
مسلم لیگ نون کی وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ کہتی ہیں کہ سول نافرمانی کی کال عمران خان کوخیبر پختونخوا حکومت چھوڑنے کے بعد دینی چاہیے تھی۔
وفاقی وزیر خزانہ اور مسلم لیگ نون کے اہم رہنما اسحق ڈار نے سول نافرمانی کی کال کوپاکستانی معیشت پرخود کش حملہ قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ عوام نے عمران خان کی کال کو مسترد کردیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بدلتے بیانات اورطاہرالقادری کے تبدیل ہوتے الٹی میٹم کے بعد ناقدین کا کہنا ہے کہ دھرنوں کا وہ دبدبہ اور رعب باقی نہیں رہا جوآغاز پر تھا۔
مختلف سیاسی رہنماؤں نے سراج الحق، خورشیدشاہ، رحمان ملک اور سندھ اور پنجاب کے گورنرز کی بیک ڈور ڈپلومیسی کوبھی دھرنا پارٹیوں کودفاعی پوزیشن پر دھکیلنے اورحکومت کوکندھا فراہم کرنے میں کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عجمان میں آصف زرداری اور اسحاق ڈار کی ملاقات میں وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی تجویز نے نوازشریف حکومت پر منڈلانے والے خطرات کو ٹال دیا ہے اوراب سیاسی حلقے پر امید ہیں کہ انقلاب مارچ ہو یا آزادی مارچ جلد اپنے منطقی انجام کوپہنچنے کو ہیں۔