محقیقن نے ایسے آبی و غیر آبی جانداروں کی 289 مختلف اقسام کی امریکا کے مغربی ساحلوں اور ہوائی شہر میں موجودگی کی نشاندہی کی ہے جو سونامی کے بعد سات ہزار کلومیٹر سے بھی زائد لمبا سفر کر کے جاپان سے امریکی ساحلوں تک پہنچے۔
8.3 شدت کا زلزلہ، دس لاکھ افراد گھر بار چھوڑ گئے
فوکوشیما جوہری ری ایکٹر سے ایک بار پھر تابکاری کا اخراج
جاپان سے امریکا پہنچنے والے ان جانداروں میں کئی مچھلیوں اور جھینگوں سمیت کئی دیگر مختلف قسم کے جاندار شامل تھے۔ محققین اس بات پر حیران ہیں کہ گزشتہ چھ برسوں سے بحر الکاہل کے کھلے پانیوں میں طویل سفر کر کے بھی یہ جانور کیسے سلامت رہے۔ ان میں سے کئی اقسام نے ان سمندری راستوں میں نسلی تسلسل کو بھی قائم رکھا۔
یہ تحقیق امریکا کے ولیمز کالج سے تعلق رکھنے والے جیمز کارلٹون کی قیادت میں محقیقین کی ایک ٹیم نے امریکی ساحلوں پر چھ سو سے زائد مختلف جاپانی ’باقیات‘ کا جائزہ لنے کے بعد جاری کی ہے۔ ان باقیات میں پلاسٹک کے ٹکڑوں سے لے کر مکمل بحری جہاز تک شامل تھے جنہیں سونامی کی لہریں تباہی پھیلانے کے بعد اپنے ساتھ واپس بحر الکاہل میں لے گئی تھیں اور پھر سمندر میں سفر کرتے کرتے یہ امریکی ساحلوں تک جا پہنچے تھے۔
محققین کی اس ٹیم میں شامل جان چیپمان کا کہنا ہے کہ اتنے طویل سفر کے بعد بچ جانے والے جانداروں کو دیکھ کر وہ ’شاک‘ کی کیفیت میں تھے۔ جان کا کہنا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ دور دراز سے آنے والے ان میں سے کئی جاندار اپنے ساتھ ممکنہ طور پر کئی طرح کی بیماریاں بھی لا سکتے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان جانداروں نے نئے علاقے میں اپنے ٹھکانے بھی بنائے ہیں یا نہیں۔ اس موضوع پر بھی تحقیق کی جا رہی ہے لیکن عام طور پر اس بابت حتمی رائے قائم کرنے کے لیے کئی برس بلکہ دہائیاں درکار ہوتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جاپانی سونامی کے چھ برس بعد بھی اب تک باقیات کے امریکی ساحلوں تک پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں سے زیادہ تر باقیات پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزوں کی ہیں۔ لکڑی کے ٹکڑوں پر مبنی باقیات کی امریکی ساحلوں تک آمد کا سلسلہ سن 2014 تک جاری رہا تھا۔ ماہرین کے مطابق لکڑی کے ٹکڑے اتنے طویل سفر اور وقت کے بعد پانی میں تحلیل ہو جاتے ہیں تاہم پلاسٹک کی زندگی طویل ہونے کے سبب اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
لیکن کیا ایسا ایک ہی مرتبہ ہوا ہے؟ سائنسدانوں کی رائے میں ممکنہ طور پر جانوروں کے بین البراعظمی سفر کے ایسے واقعات میں مستقبل میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور ایسے سفر میں سمندروں میں پہنچنے والے پلاسٹک کے ٹکڑے ذریعہ سفر بنیں گے۔
فوکوشیما حادثے کے چھ سال، خواتین اور بچے سب سے زیاہ متاثر
نیوزی لینڈ میں زلزلے کے بعد سونامی کی پہلی لہر
آج 2004ء میں آنے والی سونامی لہروں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس قدرتی آفت سے سب سے زیادہ متاثر انڈونیشیا کا جزیرہ آچے ہوا تھا۔ ان برسوں میں یہ شہر تمیر نو کی کئی منازل طے کر چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti26 دسمبر کو سماٹرا کے ساحلی علاقوں کے قریب ایک شدید زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے بحر ہند میں سونامی پیدا ہوا۔ اس کی اونچی لہریں 12 ممالک کے ساحلی علاقوں تک محسوس کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiانڈونیشیا کا صوبہ آچے سماٹرا کے شمال میں واقع ہے اور یہی اس سونامی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ صرف اس علاقے میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد مارے گئے۔ آچے کے دارالحکومت بندہ آچے کی یہ تصویر اس تباہی کی عکاس ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiآچے میں سونامی کی 35 میٹر اونچی لہروں نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس سونامی کی وجہ سے بدھ آچے کا پورا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Joel Saggetجنوب مشرقی ایشیا میں آنے والے اس سونامی کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اس سونامی کے چند روز بعد لی جانے والی یہ تصویر متاثرین کی بے گھری کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس سونامی کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صحافی کیرا کے کا کہنا تھا، ’’ہر طرف انسانی لاشیں عمارتوں کے ملبے تلے تھیں۔ متعدد کارکنان ان لاشوں کو ملبے کے نیچے سے نکال نکال کر اجتماعی قبروں میں دفن کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک منظر تھا۔‘‘
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس سانحے کے بعد آچے کا علاقہ مزید مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔ زیادہ تر افراد کا خیال تھا کہ علاقے میں ’غیراخلاقی‘ سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں خدا نے سزا دی ہے، کیوں کہ متعدد مسجدیں بچ گئیں۔ اس تصویر میں ایک پرانی مسجد نئے مکانات کے درمیان دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Chaideer Mahyuddinانڈونیشیا کے دیگر علاقوں کے لحاظ سے آچے ہمیشہ سے زیادہ قدامت پسند رہا ہے۔ اسی تناظر میں اسے ’مکہ کی راہ داری‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہاں مقامی سطح پر شرعی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے، جن میں خواتین کے لباس تک کا ضابطہ شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس تباہی کے بعد بین الاقوامی برادری کی جانب سے فراغ دلی سے مدد کی گئی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر انداز سے دوبارہ تعمیر ہوا۔ اسی تباہی نے حکومت اور باغیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری خونریز جنگ کا خاتمہ بھی کر دیا اور فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiسونامی تاریخی تھا تاہم اس سونامی کے ردعمل میں نے بین الاقوامی برادری نے امداد بھی تاریخی کی۔ اس علاقے میں اب یا تو بالکل نئی عمارتیں نظر آتی ہیں، یا باقاعدہ اچھے انداز سے مرمت شدہ۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansastiاس تباہی کے بعد آچے کے علاقے میں سڑکیں، مکانات، پل اور بندرگاہیں بالکل نئے انداز سے تعمیر کی گئیں۔ اس کے بارے میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تعمیر نو کی ایک انتہائی کامیاب کاوش رہی۔ رواں برس کی اس تصویر میں یہ علاقہ ایک نیا منظر پیش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti