سائنسدانوں کے مطابق سونامی کا سبب بننے والی سمندری لہریں کم بلندی والی لیکن انتہائی تیز رفتار ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سونامی کی پیشگی اطلاع دینے کا نظام ہر ملک کو یکساں طور پر میسر نہیں۔
اشتہار
سونامی سے نقصان پہنچنے کے امکانات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں لیکن اگر ایسا ہو جائے تو یہ بہت ہی تباہ کن ہو سکتا ہے۔ سونامی عام طور پر سمندر کے نیچے ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے سبب زلزلوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ زیر آب یہ اچانک حرکت پانی کی ایک بڑی مقدار کی نقل مکانی کا سبب بنتی ہے، جو سمندر میں لہریں برپا کر دیتی ہے۔
ان لہروں کی بلندی اکثر کم ہوتی ہے لیکن یہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ 800 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی اسپیڈ سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر سکتی ہیں۔ سونامی کا سمندر کے ذریعے سفر کرنے اور ساحل تک پہنچنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ پانی کے اندر زلزلے کا مقام کہاں ہے۔
سونامی کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟
جو لہریں سونامی بناتی ہیں، وہ عام طور پر انسانی آنکھ کے لیے اس وقت تک قابل توجہ نہیں ہوتیں، جب تک کہ وہ ساحل کے قریب نہ ہوں۔ وہ ایک قطار میں متعدد لہروں کے ایک سلسلے کے طور پر زمین پر ظاہر ہوتی ہیں اور پانی کی بڑی بڑی دیواروں کی شکل اختیار کرتے ہوئے لوگوں، عمارتوں، کاروں اور درختوں کو بہا لے جا سکتی ہیں۔
ورجینیا ٹیک میں جیو سائنسز کے شعبہ میں قدرتی خطرات کے پروفیسر رابرٹ ویس نے ایک ای میل میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ لہریں طویل وقفوں سے زمین سے ٹکراتی ہیں، جن کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا، ''ان لہروں کی آمد کا نمونہ کافی پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں پیچیدہ خصوصیات کی حامل ہیں۔‘‘
اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''صرف ایک تالاب میں دو پتھر پھینکیں اور ان کی تشکیل کردہ پیچیدہ لہروں کا مشاہدہ کریں۔ ان سے ایسا کوئی معیاری فاصلہ اور نمبر نہیں نکلتا، جس پر کوئی بھروسہ کر سکے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ریکٹر اسکیل پر 6.5 سے بڑے زلزلے عام طور پر سونامی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک سے لے کر دس تک کے درمیان نمبروں پر مشتمل یہ پیمانہ زلزلوں کی شدت کی درجہ بندی سیسموگراف نامی ڈیوائس کے ذریعے کرتا ہے۔
ایک کی شدت والے زلزلے عام ہیں اور عمومی طور پر ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا جبکہ 10 کی شدت کے زلزلے بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
بعض مرتبہ سونامی پانی کے اندر آتش فشاں پھٹنے، لینڈ سلائیڈنگ یا شہاب ثاقب کے سمندر سے ٹکرانے کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اکيسويں صدی کے سب سے تباہ کن سونامی
عموماً سب سے تباہ کن سونامی ان ممالک و خطوں سے ٹکراتے ہيں جو بحر الکاہل سے ملتے ہيں۔ ملاحضہ فرمائيے پچھلے بيس سالوں کے دوران آنے والے ايسے ہی چند تباہ کن حادثات کی تفصيلات۔
تصویر: BNPB
انڈونيشيا، سن 2018
بائيس دسمبر سن 2018 کو انڈونيشيا کا ايک چھوٹا سا آتش فشاں اناک کراکٹاؤ پھوٹ پڑا۔ اس سے آبنائے سنڈا ميں سماٹرا اور جاوا کے جزائر کے درميان سونامی کی لہريں پيدا ہوئيں۔ اس تباہ کن سونامی کے نتيجے ميں ساحلی علاقوں ميں دو سو سے زائد افراد ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔
تصویر: BNPB
نيوزی لينڈ، سن 2016
دو برس قبل آنے والا کائيکورا نامی زلزلہ نيوزی لينڈ کی تاريخ ميں نوآبادیاتی دور کے بعد کا دوسرا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔ زلزلے کے بعد بھی تقريباً بيس ہزار آفٹر شاکس يا ضمنی جھٹکے محسوس کيے گئے اور ايک سات ميٹر اونچی سونامی کی لہروں نے بھی کئی علاقوں کو اپنی لپيٹ ميں ليا۔ اس واقعے ميں دو افراد کی جانيں گئيں جبکہ درجنوں ديگر زخمی ہوئے۔
تصویر: Imago/Xinhua/L. Huizi
جاپان، سن 2011
سن 2011 ميں جاپان ميں آنے والا سونامی بھی زير سمندر ايک طاقت ور زلزلے کے نتيجے ميں آيا تھا۔ اس سونامی کی وجہ سے تقریبا چاليس ميٹر اونچی لہروں نے ساحلی علاقوں ميں تباہی مچائی۔ اسی سونامی کے سبب فوکوشيما ڈائچی نيوکليئر پاور پلانٹ بھی متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Tomizawa
چلی، سن 2010
چلی ميں زلزلے آکثر آتے رہتے ہيں۔ وہاں سن 1960 ميں آنے والا زلزلہ آج بھی تاريخ کے طاقتور ترين زلزلوں ميں شمار کیا جاتا ہے۔ فروری سن 2010 ميں وہاں آٹھ اعشاريہ آٹھ کی شدت کا ایک زلزلہ آيا، جس سبب پيدا ہونے والی لہريں اس قدر طاقتور تھيں کہ جاپان تک ميں انتباہی اعلانات کيے گئے۔ چلی کے ساحلی علاقوں سے ٹکرانے والی اس سونامی کی لہريں پانچ سو پجيس افراد کی موت کا سبب بنيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hernandez
سولومن جزائر، سن 2007
اپريل سن 2007 ميں پاپوا نيو گنی اور سولومن جزائر طاقتور سونامی کی زد ميں آئے۔ اس قدرتی آفت نے باون افراد کی جان لی۔ ايک بارہ ميٹر اونچی لہر نے دو ديہات مسمار کر دیے اور کم از کم نو سو مکانات منہدم ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Robichon
بحر ہند، سن 2004
يہ تصوير تھائی لينڈ کے ايک ساحل کی ہے۔ يہ اس تباہی کا ايک مختصر حصہ دکھاتی ہے، جو سن 2004 ميں آنے والے سونامی کے نتيجے ميں ہوئی تھی۔ ايک سو بيس فٹ کا يہ سونامی چھبيس دسمبر کے روز آيا تھا۔ اس کے نتيجے ميں چودہ ممالک کے افراد متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ تيس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Gacad
6 تصاویر1 | 6
سونامی کہاں آتے ہیں؟
سونامی عام طور پر بحر الکاہل میں 'رنگ آف فائر‘ کے ارد گرد کے علاقے میں آتے ہیں۔ یہ علاقہ ایک ٹیکٹونک پلیٹ پر مشتمل ہے، جس میں آتش فشاں اور زلزلے آتے ہیں۔ امریکی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ( این او اے اے) میں سونامی پروگرام کے مطابق پچھلی صدی میں آنے والے سونامیوں میں سے تقریباً 80 فیصد اسی علاقے میں آئے۔
تاریخ کے سب سے تباہ کن سونامیوں میں سے ایک 2004ء میں انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں آیا تھا، جب ساحل پر 9.1 شدت کے زلزلے کے بعد سونامی 50 میٹر کی بلندی تک پہنچا اور اس نے آبادی کے پانچ کلومیٹر اندر تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا، جس سے تقریباً 230,000 افراد ہلاک ہوئے۔
جاپان کے مرکزی جزیرے ہونشو کے ساحل پر 2011ء کا زلزلہ اور سونامی بھی اپنی تباہی کے لیے مشہور ہے۔ نو اعشاریہ صفر کی شدت کے زلزلے کے نتیجے میں آنے والے سونامی کی وجہ سے تقریباً 20,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ویس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سونامی نے بھی آبادی والے علاقے کے تقریباً 5 کلومیٹر کے حصے کو متاثر کیا تھا۔
بحر اوقیانوس اور بحیرہ کیریبین، بحیرہ روم اور بحر ہند بھی سونامی کے تجربات کر چکے ہیں۔
اشتہار
ہم کیسے جانتے ہیں کہ سونامی آنے والا ہے؟
سونامی کب اور کہاں سے ٹکرائے گی اس کا صحیح اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ پروفیسر رابرٹ ویس کے مطابق، ''مسئلہ یہ ہے سونامی کی سب سے عام وجہ زلزلے ہیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ کہاں، کب، کتنی گہرائی اور کس شدت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘‘
سونامی کے بارہ سال
آج 2004ء میں آنے والی سونامی لہروں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس قدرتی آفت سے سب سے زیادہ متاثر انڈونیشیا کا جزیرہ آچے ہوا تھا۔ ان برسوں میں یہ شہر تمیر نو کی کئی منازل طے کر چکا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
ایک بہت شدید زلزلہ
26 دسمبر کو سماٹرا کے ساحلی علاقوں کے قریب ایک شدید زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے بحر ہند میں سونامی پیدا ہوا۔ اس کی اونچی لہریں 12 ممالک کے ساحلی علاقوں تک محسوس کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
بڑا دھچکا
انڈونیشیا کا صوبہ آچے سماٹرا کے شمال میں واقع ہے اور یہی اس سونامی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ صرف اس علاقے میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد مارے گئے۔ آچے کے دارالحکومت بندہ آچے کی یہ تصویر اس تباہی کی عکاس ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
بربادی
آچے میں سونامی کی 35 میٹر اونچی لہروں نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ اس سونامی کی وجہ سے بدھ آچے کا پورا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
تصویر: AFP/Getty Images/Joel Sagget
بے گھری
جنوب مشرقی ایشیا میں آنے والے اس سونامی کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اس سونامی کے چند روز بعد لی جانے والی یہ تصویر متاثرین کی بے گھری کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
’یہ منظر خوف ناک تھا‘
اس سونامی کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صحافی کیرا کے کا کہنا تھا، ’’ہر طرف انسانی لاشیں عمارتوں کے ملبے تلے تھیں۔ متعدد کارکنان ان لاشوں کو ملبے کے نیچے سے نکال نکال کر اجتماعی قبروں میں دفن کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک منظر تھا۔‘‘
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
خدا کی طرف سے سزا؟
اس سانحے کے بعد آچے کا علاقہ مزید مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔ زیادہ تر افراد کا خیال تھا کہ علاقے میں ’غیراخلاقی‘ سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں خدا نے سزا دی ہے، کیوں کہ متعدد مسجدیں بچ گئیں۔ اس تصویر میں ایک پرانی مسجد نئے مکانات کے درمیان دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Chaideer Mahyuddin
شرعی قوانین
انڈونیشیا کے دیگر علاقوں کے لحاظ سے آچے ہمیشہ سے زیادہ قدامت پسند رہا ہے۔ اسی تناظر میں اسے ’مکہ کی راہ داری‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہاں مقامی سطح پر شرعی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے، جن میں خواتین کے لباس تک کا ضابطہ شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
غیرمتوقع نتائج
اس تباہی کے بعد بین الاقوامی برادری کی جانب سے فراغ دلی سے مدد کی گئی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر انداز سے دوبارہ تعمیر ہوا۔ اسی تباہی نے حکومت اور باغیوں کے درمیان دہائیوں سے جاری خونریز جنگ کا خاتمہ بھی کر دیا اور فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
تعمیر نو یا مرمت
سونامی تاریخی تھا تاہم اس سونامی کے ردعمل میں نے بین الاقوامی برادری نے امداد بھی تاریخی کی۔ اس علاقے میں اب یا تو بالکل نئی عمارتیں نظر آتی ہیں، یا باقاعدہ اچھے انداز سے مرمت شدہ۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
تعمیر نو
اس تباہی کے بعد آچے کے علاقے میں سڑکیں، مکانات، پل اور بندرگاہیں بالکل نئے انداز سے تعمیر کی گئیں۔ اس کے بارے میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی تعمیر نو کی ایک انتہائی کامیاب کاوش رہی۔ رواں برس کی اس تصویر میں یہ علاقہ ایک نیا منظر پیش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Ulet Ifansasti
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے کہا کہ زلزلے اور اس کے بعد سونامی کے نمودار ہونے کے درمیان کا وقت کم ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اس طرح کے واقعات کے لیے تیاری بہت ضروری ہے لیکن کسی ایسی چیز کے لیے تیاری کرنا مشکل ہے جس کا تجربہ لوگ اپنی زندگی میں دو بار شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''بڑے زلزلے اور اس کے نتیجے میں سونامی عالمی سطح پر اکثر رونما ہو سکتے ہیں لیکن یہ شاذ و نادر ہی ایک خطے میں ایک ہی تباہ کن سطح پر دو بار رونما ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اچھی وارننگ کے ساتھ ساتھ تیاری بھی بہت ضروری ہے۔ ان دونوں عوامل میں سے صرف ایک یا دوسرے کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔‘‘
عالمی سونامی انتباہی مراکز آبزرویشن سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے سمندروں کو اسکین کرتے ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پانی کے اندر زلزلے کب آ سکتے ہیں اور مقامی حکام خطرے کا پتہ چلنے پر انتباہ بھیجتے ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ نظام ہر جگہ موجود نہیں ہیں۔ اس عالمی ادارے نے 2023 میں کہا تھا، ''دنیا کے نصف ممالک میں(انتباہ کے) مناسب نظام کی کمی ہے اور یہاں تک کہ بہت ہی کم ممالک نے ان نظاموں کی تیاری اور ردعمل کو باہم مربوط کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔‘‘
''سونامی کے اثرات کا تجربہ یکساں طور پر نہیں کیا جاتا: غریب اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے لوگ اکثر سونامی کی نوعیت کے حادثات میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔‘‘