سونا تلاش کرنے والے تیس افغان شہری اچانک سیلاب کے باعث ہلاک
6 جنوری 2019
افغانستان میں ایک دریا میں سونا تلاش کرنے والے کم از کم تیس شہری اچانک آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ صوبائی حکام کے مطابق یہ واقعہ شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں پیش آیا۔ متعد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کابل سے اتوار چھ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق بدخشاں کے صوبائی دارالحکومت فیض آباد سے قریب 110 کلومیٹر (68 میل) دور ضلع کوہستان میں 50 کے قریب افغان شہری ایک دریا میں سونا تلاش کر رہے تھے کہ اچانک آنے والے سیلاب کے نتیجے میں پانی کے تیز ریلوں میں بہہ گئے۔
صوبائی گورنر کے ترجمان نیک محمد نذری نے بتایا کہ یہ دیہاتی غیر قانونی طور پر اس دریا میں ایک ایسے جگہ پر کھدائی کر کے بہت نیچے تک چلے گئے تھے، جہاں ماضی میں بھی سونے کی تلاش کے لیے کھدائی کی گئی تھی۔
اسی دوران صوبے میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں دریا میں اچانک سیلاب آ گیا، تو ان درجنوں افراد کو سونے کی زیر زمین ’غیر قانونی کان‘ سے باہر نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ نذری نے بتایا، ’’کم از کم 30 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور کئی افراد تاحال لاپتہ ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔‘‘
اس کے برعکس بدخشاں کی صوبائی پارلیمان کے ایک رکن نے بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی کل تعداد 40 ہو چکی ہے۔ صوبائی پولیس کے ترجمان ثنااللہ روحانی نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ سیلاب کے نتیجے میں مٹی کے تودے گرنے سے متعدد افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے سات کی حالت نازک ہے۔
افغانستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ایسا پہاڑی ملک ہے، جہاں تانبے، لوہے، کرومائیٹ، پارے اور سونے چاندی سمیت کئی قدرتی معدنیات کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں لیکن وہاں عشروں سے جاری خانہ جنگی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے باعث یہ قدرتی ذخائر آج تک نکالے ہی نہیں جا سکے۔
ہندو کش کی اس ریاست میں اس شعبے میں حکومت کی طرف سے کوئی باقاعدہ طویل المدتی سرمایہ کاری بھی نہیں کی جا سکی۔ اسی لیے بہت سے مقامی باشندے وہاں غیر قانونی طور پر ان قدرتی وسائل کی کان کنی کی کوشش کرتے ہیں۔
م م / ع ب / اے پی
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.