موزمبیق کے صوبے مانیکا میں سونے کی غیر قانونی کان کنی ماحولیاتی نقصان کا باعث بن رہی ہے جب کہ انسانوں اور جانوروں کی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین ماحولیات اور حکام خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
موزمبیق میں بے روزگار خواتین کشتی چلا کر اپنی بے روزگاری کا سد باب کرنے کی کوشش کرتی ہیںتصویر: Marcelino Mueia/DW
اشتہار
مغربی موزمبیق میں دریائے ریویو اور اس کی معاون ندیوں کے کنارے ہزاروں غیر قانونی سونے کے کان کن، جنہیں مقامی طور پر 'گیریمپیروس' کہا جاتا ہے، سونے سے مالا مال علاقوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ یہ کان کن نہ صرف موزمبیق کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ زمبابوے، ملاوی اور زیمبیا جیسے ہمسایہ ممالک سے بھی آتے ہیں۔
بہتر زندگی کی تلاش میں، یہ افراد ماحولیاتی تحفظ اور صحت کے خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئےسونا نکالنے کے لیے مرکری، سائینائیڈ اور آرسینک جیسے زہریلے کیمیکل استعمال کرتے ہیں۔
ازبکستان میں سونے کی تلاش
03:19
This browser does not support the video element.
یہ خطرناک مادے کان کنی کے دوران زمین اور پانی میں شامل ہو جاتے ہیں، جس سے مقامی ماحولیاتی نظام اور آس پاس کی آبادیوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
علاقے میں پینے کے پانی کا سب سے اہم ذریعہ Chicamba ڈیم اور Revue دریا ہے، جو اس آلودگی سے خاص طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
افریقی ممالک میں خواتین سونے کی کانوں میں کام کرتی ہیںتصویر: Luis Tato/AFP/Getty Images
غیر قانونی سونے کی کان کنی کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان
مانیکا کی صوبائی حکومت نے غیر قانونی سونے کی کان کنی کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
زمبابوے کی سرحد سے متصل اس علاقے میں غیر رسمی کان کن ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زہریلے کیمیکل استعمال کر رہے ہیں، جس سے دریاؤں اور پانی کے ذخائر آلودہ ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی کمپنیاں جیسے کہ Xtract Resources plc اور Horizonte Minerals plc، دونوں کا ہیڈ کوارٹر UK میں ہے، ماحولیاتی معیارات کی مکمل تعمیل کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
سونے کی تلاش
تنزانیہ کے شمال مغربی علاقے نارتھ مارا کی زمینوں میں اندازوں کے مطابق 3.8 ملین اونس سونا دفن ہے۔ اس افریقی ملک میں سونے کی چھ کانیں ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
چھپا ہوا خزانہ
2006ء سے شمالی مارا میں واقع اس کان کا انتظام ’افریقن بِرک گولڈ‘ نامی کمپنی کے پاس ہے، جو دنیا میں سونے کی کان کنی کی صنعت میں سب سے بڑی کمپنی ’برِک گولڈ‘ کی ایک سبسڈری ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
گولڈ مائیننگ
شمالی مارا کے مائننگ کمپلیکس میں’گوکونا‘ ان تین بڑے سوراخوں کا نام ہے، جہاں سے کان کن اس کان کے اندر اترتے ہیں۔ پتھروں میں چھپے سونے کو نکالنے کے لیے وہاں روزانہ ہی دھماکے کیے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس برسوں میں اس کان سے تمام تر سونا نکال لیا جائے گا۔
تصویر: DW/J. Hahn
مقامی لوگوں کے لیے روزگار
تنزانیہ کے علاقے شمالی مارا میں سونے کی اس کان سے بہت سے مقامی لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کان میں دو ہزار سے زائد افراد کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس علاقے کے زیادہ تر لوگ بے روزگار ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
باڑ کے پیچھے
اس کان کے اردگرد باڑیں نصب کی گئی ہیں تاکہ چور اُچکوں کو وہاں داخل ہونے سے روکا جا سکے لیکن پھر میں اکثر اوقات کچھ لٹیرے اس باڑ کو کاٹ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس کان کی سکیورٹی کے لیے تنزانیہ کی پولیس کے علاوہ نجی سکیورٹی اداروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ تاہم چوروں اور سکیورٹی اہلکاروں کے مابین اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
دراندازی کرنے والے
اس کان میں سونے کے پتھر چرانے کی کوشش کرنے والے افراد سینکروں کی تعداد میں حملہ کرتے ہیں۔ یوں یہ افراد چوری کا مال کم داموں فروخت کر کے کچھ رقم حاصل کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ملبہ ہمیں دیا جائے
’’ہم صرف ملبہ اٹھاتے ہیں لیکن پولیس ہمارا پیچھا شروع کر دیتی ہے‘‘، یہ کہنا ہے مقامی رہائشی جومانے کا۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس ان کے گاؤں تک ان کا پیچھا کرتی ہے اور گھنٹوں ان کے گھروں کی تلاشی بھی لی جاتی ہے، جس دوران کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ اس کان میں دراندازی کرنے والوں میں شامل جومانے کا اصرار ہے کہ کان کنی کے بعد ملبہ ان کے حوالے کر دیا جانا چاہیے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سونا چھاننے والے
کان سے نکلنے والے ملبے کو دھویا جاتا ہے اور اسے چھان کر اس سے سونے کے ذرات نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر یہ صبر آزما طویل کام خواتین کا ہوتا ہے۔ جسمانی اور دماغی طور پر تھکا دینے والا یہ کام کرنے والوں کو ماہانہ صرف دس یورو کی تنخواہ دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
محروم علاقہ
شمالی مارا تنزانیہ کا نہ صرف غریب ترین بلکہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی یہ محروم ترین علاقہ ہے۔ اس کان کے اردگرد واقع سات دیہات کے مقامی لوگ پہلے وہاں خود ہی کان کنی کے کام میں مصروف تھے، تاہم نوّے کی دہائی میں بین الاقوامی کمپنیوں کی آمد کی وجہ سے یہ علاقہ مقامی آبادی کے ہاتھوں سے نکل گیا۔
تصویر: DW/J. Hahn
مایوسی اور ناامیدی
اس کان کے قریب واقع کیوانجا نامی دیہات کے باسیوں کا کہنا ہے، ’’اس کان نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔‘‘ اس علاقے میں نہ تو پانی کا باقاعدہ انتظام ہے اور نہ ہی بجلی کا۔ اس دیہات میں بیس گھرانے ماہانہ 140 یورو کے قریب رقم پر گزارا کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
’میرا سب کچھ چِھن گیا‘
گاٹی میرمبارمیٹا کا کہنا ہے، ’’اس کان نے میرا سب کچھ چھین لیا ہے۔‘‘ نومبر 2012ء میں پولیس نے اس کے بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ اس کا بیٹا بھی دیگر سینکڑوں دیگر افراد کے ساتھ اس کان پر حملہ آور ہوا تھا۔ تاہم میٹا کا کہنا ہے، ’’میرا بیٹا ان میں شامل نہیں تھا۔ وہ تو وہاں بھیڑ بکریاں چرا رہا تھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Hahn
ایک گرام سونا
ایک گرام سونا جو اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، اس کی قمیت بیالیس ہزار شِیلنگ ہے۔ تنزانیہ کی کرنسی کو اگر یورو کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو یہ بیالیس ہزار کی یہ رقم صرف بیس یورو بنتی ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
11 تصاویر1 | 11
مانیکا میں سالوں سے سونے کی کان کنی کی مراعات رکھنے کے بعد، وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ غیر رسمی کان کنوں کے برعکس مقامی طور پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ستمبر کے اوائل میں ایک پریس بریفنگ میں، مانیکا کی گورنر فرانسسکا ٹامس نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی بنیادی تشویش ماحولیاتی تحفظ ہے۔ ان کے بقول،''ہمیں اپنے دریاؤں کو صاف ستھرا اور بہتا رکھنا چاہیے ، نہ صرف زراعت کے لیے بلکہ ان لوگوں کے لیے جو پینے کے پانی کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
ایتھوپیا میں متعدد سرحدی علاقے سونے کی کانوں کی وجہ سے نزع کا باعث بنے ہوئی ہیں تصویر: Dima District Government Communication Office
مانیکا میں غیر قانونی کان کنی میں اضافہ ماحولیاتی بحران کا سبب
موزمبیق کے سونے سے مالا مال مانیکا ضلع میں کئی کان کن ماحولیاتی قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے خطرناک طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔
نتیجتاً، دریاؤں کا پانی آلودہ ہو رہا ہے، کنارے خشک ہو رہے ہیں اور گاد جمع ہونے سے بہاؤ متاثر ہو رہا ہے۔
تاہم، Mukurumadzi اور Penhalonga جیسے علاقوں میں حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
غیر قانونی کان کن خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ مرکری جیسے زہریلے مادے استعمال کرتے ہیں، لیکن متبادل ذرائع نہ ہونے کے باعث وہ یہ خطرہ مول لینے پر مجبور ہیں۔