سونیا کا راہول کی نامزدگی تسلیم کرنے سے انکار
17 جنوری 2014بھارت میں رواں برس مئی میں پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں۔ بعض ریاستوں میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حکمران جماعت کانگریس کے اگلے انتخابات میں حکومت میں رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اطالوی نژاد سونیا گاندھی ان انتخابات کو بھارت کی اکثریتی آبادی ہندوؤں کی سیکولر شناخت کی جنگ قرار دے چکی ہیں۔
سیاسی طور پر مشکلات کی شکار کانگریس کے مرکزی رہنماؤں کی طرف سے مطالبات سامنے آئے تھے کہ آئندہ انتخابات کے لیے سونیا اور مقتول سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے بیٹے کو وزارت عظمیٰ کا امیداوار نامزد کر دیا جائے۔ ان رہنماؤں کے خیال میں اس طرح گاندھی خاندان کے وارث کے طور پر راہول گاندھی کو عوامی حمایت حاصل ہو پائے گی۔ تاہم جمعرات 16 جنوری کو سونیا گاندھی نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے ایک روز بعد سونیا نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کو دہرایا ہے۔ نئی دہلی میں پارٹی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی کا کہنا تھا: ’’ہم نے راہول کے حوالے سے کل ہی فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حتمی ہے۔‘‘ نئی دہلی کے صحافیوں کے مطابق کانگریس جماعت کے بہت کم رہنما ہی سونیا گاندھی کے اس فیصلے سے متفق ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایک دہائی تک طاقت میں رہنے کے بعد کانگریس پارٹی اس وقت مقبولیت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ اقتصادی سست روی کے علاوہ حکومتی عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی سے متعلق اسکینڈلز کا سلسلہ ہے۔
موجودہ وزیراعظم من موہن سنگھ مسلسل دو ادوار تک اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد اب واضح کر چکے ہیں کہ اگر ان کی جماعت کو انتخابات میں کامیابی مل بھی جاتی ہے تو وہ آئندہ مدت کے لیے وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ ان حالات میں پارٹی کے رہنما توقع کر رہے تھے کہ 43 سالہ راہول گاندھی کو پارٹی اجتماع میں آئندہ مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزد کر لیا جائے گا۔
تاہم اس کے امکانات اس وقت ختم ہو گئے جب کانگریس پارٹی کی طاقتور صدر اور نہرو-گاندھی خاندان کی سینیئر ترین فرد سونیا گاندھی نے جمعرات کی شام ہونے والی ایک میٹنگ میں یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔