1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سونیا گاندھی اصلاحات پر آمادہ کیسے ہوئیں؟

27 ستمبر 2012

بھارت میں کانگریس پارٹی کے لیے اگست کا مہینہ بڑا مشکل تھا۔ اقتصادی ترقی کم رفتار، مون سون کی بارشیں انتہائی تباہ کن اور اپوزیشن کے ہاتھ حکومت کا ایک اور کرپشن اسکینڈل آ گیا تھا۔

تصویر: AP

اس موقع پر سونیا گاندھی نے حکمران کانگریس پارٹی کے ارکان پارلیمان کے ایک اجلاس میں ان کا مورال بلند کرنے کی کوشش کی۔ سونیا گاندھی نے اس اجلاس میں کانگریس کے منتخب ارکان سے کہا کہ انہیں احساس ذمہ داری کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے مقاصد کے لیے جنگ کرنی چاہیے۔

سونیا گاندھی نے اصلاحات کی حمایت اس لیے بھی کی کہ وہ معیشت میں کھلے پن کی حامی ہیںتصویر: AP

سونیا گاندھی عام طور پر بڑے اعتدال پسندانہ انداز میں تقریر کرتی ہیں۔ لیکن پارٹی کے ارکان پارلیمان کے اس اجلاس سے ان کا خطاب کافی جذباتی تھا۔

اطالوی نژاد سونیا گاندھی کے پاس بھارتی حکومت میں کوئی باقاعدہ عہدہ نہیں ہے۔ لیکن حکمران کانگریس پارٹی کی صدر اور ملک میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے گاندھی خاندان کی سربراہ کے طور پر کئی پالیسی امور میں ان کا کہا آخری لفظ ثابت ہوتا ہے۔

سونیا گاندھی کے لیے معیشت میں کھلے پن کی پالیسی بہت اہم رہی ہے۔ لیکن انہوں نے سماجی بہبود کو معیشت کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ اہمیت دی ہے۔

سونیا گاندھی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: AP

اس بھارتی سیاسی رہنما کے بہت قریبی سرکاری اہلکاروں اور پارٹی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جن بڑی اقتصادی اصلاحات کا پروگرام بنایا ہے، ان کی ملک میں کئی سیاسی جماعتیں مخالفت بھی کر رہی ہیں۔ عوام بھی کافی حد تک ان مجوزہ اصلاحات کے خلاف ہیں۔ چھوٹے تاجروں نے اس بارے میں مظاہرے بھی کیے کہ حکومت نے ملک میں ریٹیل مارکیٹ کو غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایسے میں سونیا گاندھی کے لیے ان اصلاحات کی تائید کا فیصلہ ایک امتحان سے کم نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کے انتہائی اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ سونیا گاندھی نے ان اصلاحات کی پارٹی سطح پر منظوری بڑے غور و فکر کے بعد دی۔

اہم ترین حکومتی اور پارٹی عہدیداروں کو انہیں اس بات کا قائل کرنا پڑا تھا کہ موجودہ حالات میں بھارت میں ایک نئے اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں یہ خطرہ تھا کہ بھارت اسی طرح کے بحران کا شکار ہو جاتا جس نے 1991ء میں اس ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

سونیا گاندھی جرمن چانسلر انگیلامیرکل کے ساتھ، فائل فوٹوتصویر: AP

سونیا گاندھی کی سوانح حیات لکھنے والے مصنف رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ سونیا گاندھی چاہتی تھیں کہ ان سب مجوزہ اصلاحات پر اسی طرح عمل کیا جائے۔ لیکن قدوائی کے بقول نئی دہلی حکومت اور کانگریس پارٹی کی قیادت کو سونیا گاندھی سے اپنا نقطہ نظر تسلیم کروانا پڑا۔

رشید قدوائی کے مطابق سونیا گاندھی پر واضح کر دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے من موہن سنگھ حکومت کے اقتصادی پروگرام کی تائید نہ کی تو اس کے بھارتی معیشت کے لیے نتائج انتہائی منفی ہوں گے۔

بھارت ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک۔ روئٹرز کے مطابق بھارتی معیشت میں وسیع تر اصلاحات کے حکومتی ارادوں کو فیصلہ کن تحریک اگست کے شروع میں ملی۔ تب پرنب مکھرجی کے صدر بننے کے بعد پی چدمبرم دوبارہ وزیر خزانہ بنا دیے گئے تھے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی نے ملک میں جامع اقتصادی اصلاحات کی حمایت اس لیے بھی کی کہ وہ معیشت میں کھلے پن کی حامی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کے لیے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ بھارتی بجٹ میں خسارہ کم ہونا چاہیے۔

(Ij / mm (Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں