سوویت انقلاب کے بیس برس مکمل، گوربا چوف کا انتباہ
18 اگست 201180 سالہ روسی سیاست دان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ روس آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے۔
کل جمعہ کو سوویت یونین کے سخت گیر مؤقف کے حامل کمیونسٹ رہنماؤں کی جانب سے گوربا چوف کی اصلاحاتی پالیسی کے خلاف 19 اگست 1991 کے انقلاب کو بیس سال پورے ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اُس سال دسمبر میں سوویت یونین تحلیل ہو گیا تھا۔
گوربا چوف کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ صورت حال پر خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’شرح اموات کے لحاظ سے ہم افریقی ملکوں کے ساتھ کم ترین سطح پر کھڑے ہیں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سالوں سے موازنہ کیا جائے تو ملک میں لوگوں کی نصف تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اعلٰی سطح پر تبدیلی کا عمل ہونا چاہیے۔
گوربا چوف اکثر ولادیمیر پوٹن پر نکتہ چینی کرتے ہیں، جنہوں نے 2000ء میں بورس یلسن کے بعد عہدہ صدارت سنبھالا تھا اور اس وقت وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ 2008ء میں کریملن کا عہدہ اپنے معتمد دیمتری میدویدیف کے حوالے کرنے کے بعد وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے مگر تمام اہم فیصلے اب بھی ان کی مرضی سے کیے جاتے ہیں۔
سوویت یونین کی تحلیل کی بیسویں سالگرہ ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب اگلے انتخابات کے حوالے سے یہ غیر یقینی عنصر پایا جاتا ہے کہ ملک کا آئندہ صدر کون بنے گا۔
میخائل گوربا چوف نے کہا کہ تبدیلی کا عمل صرف پوٹن یا میدویدیف تک محدود نہیں ہے بلکہ دیانت دارانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ سابق سوویت صدر نے کہا کہ ان کے خیال میں سیاسی منظر نامے میں ارب پتی میخائل پروخوروف کی آمد حکومت کے اشارے پر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رائٹ کاز پارٹی کے سربراہ میخائل پروخوروف انتخابات میں ووٹ حاصل کر سکتے ہیں تاہم اگر انہوں نے مطلوبہ ووٹ نہ بھی لیے تو مقتدر حلقے انہیں کامیابی دلا دیں گے۔
اکثر تجزیہ کاروں کی پیش گوئی ہے کہ وزیر اعظم پوٹن ایک بار پھر کریملن میں آنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اپنی برسر اقتدار یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے لیے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
مبصرین کے نزدیک یونائیٹڈ رشیا پارٹی کی حالت سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی جیسی ہے جسے 80 سال تک سوویت یونین میں پالیسی سازی کی مکمل اجارہ داری حاصل تھی۔
اگست کے انقلاب میں بورس یلسن ایک مقبول عوامی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے تھے اور انہوں نے گورباچوف کو ایک سرکاری عمارت میں قید کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ گورباچوف کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والوں میں خفیہ ادارے کے جی بی کے سربراہ اور ان کے اپنے نائب صدر کے علاوہ سوویت یونین کے وزرائے دفاع اور داخلہ بھی شامل تھے۔
گوربا چوف نے اقتدار کی کشمکش کے دوران اپنی کم ہمتی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں جوہری ہتھیاروں سمیت ہر قسم کے اسلحے کے انبار لگے ہوئے تھے اور اگر وہ اس پر مزاحمت کرتے تو خانہ جنگی چھڑ سکتی تھی۔
1990ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے گورباچوف کو روس میں شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ انہوں نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ