سوویت انقلاب کے سو سال، تقریبات کے لیے کمیونسٹ حلقے سرگرم
عابد حسین
24 اکتوبر 2017
روس میں کمیونسٹ انقلاب کے دوران پچیس اکتوبر 1917ء کو شاہی عمارات پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے بعد قائم ہونے والی سوویت یونین کی وسیع و عریض کمیونسٹ ریاست عشروں پہلے ختم ہو گئی تھی۔
اشتہار
روس کے کمیونسٹ حلقوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پچیس اکتوبر کو بالشویک انقلاب کے ایک سو برس مکمل ہونے پر خصوصی ریلیوں میں شریک ہوں۔ دوسری جانب روسی حکومت کی جانب سے کسی بڑی تقریب کے انعقاد کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
روس کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ گیناڈی زِیُوگانوف (Gennady Zyuganov) کا کہنا ہے کہ اس انقلاب کی ایک صدی مکمل ہونے پر خصوصی تقریبات کا اہتمام ضروری ہے اور ایسی تقریبات میں لینن کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکتا ہے۔ زِیُوگانوف نے مزید کہا کہ بالشویک انقلاب انسانی تاریخ کا ایک عظیم باب ہے اور اسی نے دنیا میں ایک نئے عہد کا دروازہ کھولا تھا۔
اس سلسلے میں ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ روسی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کے مطابق سینٹ پیٹرزبرگ میں انقلاب کی راہ میں پہلی گولیاں چلی تھیں، اس لیے وہاں ایک خصوصی تقریب میں کافی زیادہ تعداد میں عوام کی شرکت متوقع ہے۔ اس کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے کارکن موجودہ اسمولنی انسٹیٹیوٹ کی عمارت بھی جائیں گے کیونکہ اس عمارت میں سن 1917 میں لینن نے اپنا پہلا دفتر بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ماسکو میں ایک خصوصی مارچ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اس مارچ میں دنیا بھر سے سوشلسٹ تنظیموں کے نمائندے شریک ہوں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بالشویک انقلاب کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ پوٹن نے حال ہی میں سوچی شہر میں کمیونسٹ دور میں شروع کیے جانے والے ورلڈ یوتھ فیسٹیول میں شرکت ضرور کی تھی۔ ان کی اس شرکت کو کمیونسٹ حلقوں نے سراہا تھا۔
بالشویک انقلاب کے بعد ہی ماضی کی یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس یا یو ایس ایس آر (USSR) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ ریاست 1990 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ ایک واحد ریاست کے طور پر سوویت یونین کا جانشین موجودہ وفاق روس بنا تھا۔
روس کی موجودہ حکومت اس انقلاب کی ایک صدی مکمل ہونے پر چوبیس اکتوبر تک پوری طرح خاموش دکھائی دی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ وفاق روس کو اپنے کمیونسٹ اور انقلابی ماضی سے پیدا شدہ مسائل کا سامنا اب بھی ہے۔
جرمنی میں کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی یادگاریں
کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز دونوں کو بابائے سوشلزم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں یہ دونوں شخصیات متنازعہ تصور کی جاتی ہیں تاہم پھر بھی مختلف جرمن شہروں میں ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB
چین سے ایک تحفہ
کارل مارکس کی پیدائش جرمن شہر ٹریئر میں ہوئی تھی اور آئندہ برس اُن کا دو سوواں یومِ پیدائش منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر چین نے ٹریئر شہر کو مارکس کا 6.3 میٹر (بیس فٹ) سائز کا ایک مجسمہ بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ طویل بحث مباحثے کے بعد سٹی کونسل نے اس تحفے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لکڑی کے اس مجسمے (تصویر) کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اصل مجسمہ کیسا ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
مارکس ایک تاریخی شخصیت
جرمن شہر ٹریئر میں 2013ء میں کارل مارکس کی ایک سو تیس ویں برسی منائی گئی تھی۔ تب جرمن فنکار اوٹمار ہوئرل کی جانب سے ٹریئر کے تاریخی مقام پورٹا نیگرا کے سامنے مارکس کے پانچ سو مجسمے نصب کیے گئے تھے، جو پلاسٹک سے بنے ہوئے تھے۔ ان مجسموں کے ذریعے اس فنکار کا مقصد یہ تھا کہ لوگ مارکس کی تاریخی شخصیت اور اُن کی شاہکار تصنیفات پر نئے سرے سے بحث مباحثہ شروع کریں۔
تصویر: Hannelore Foerster/Getty Images
سوچ میں ڈُوبے فریڈرش اینگلز
مارکس کے ساتھ ساتھ فریڈرش اینگلز کو بھی کمیونزم کا ایک بڑا فلسفی مانا جاتا ہے۔ اُن کا تانبے سے تیار کیا گیا چار میٹر سائز کا یہ مجسمہ اُن کے آبائی جرمن شہر وُوپرٹال میں نصب ہے۔ چینی حکومت نے ایک چینی فنکار کا بنایا ہوا یہ مجسمہ 2014ء میں وُوپرٹال شہر کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اینگلز کا یہ مجسمہ سائز میں ٹریئر شہر میں کارل مارکس کے مجوزہ مجسمے سے چھوٹا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
روحانی بھائی
1848ء میں شائع ہونے والی تصنیف ’کمیونسٹ منشور‘ کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی مشترکہ کاوِش تھی۔ یہ تصویر ان دونوں کے برلن میں نصب مجسموں کی ہے۔ سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے ایماء پر 1986ء میں تیار کردہ ان مجسموں کا مقصد بابائے کمیونزم تصور کیے جانے والے ان فلسفیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ نئے سرے سے نصب کردہ ان دونوں مجسموں کا رُخ اب مشرق کی بجائے مغرب کی جانب ہے۔
تصویر: AP
مارکس کا بہت بڑا مجسمہ
کارل مارکس کا ایک بہت بڑے سائز کا یہ مجسمہ مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں ہے۔ 1953ء سے لے کر 1990ء تک اس شہر کا نام ’کارل مارکس سٹی‘ ہوا کرتا تھا۔ تیرہ میٹر سائز کا یہ مجسمہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا مسجسمہ ہے۔ اس مجسمے کے پیچھے دیوار پر چار زبانوں جرمن، انگریزی، روسی اور فرانسیسی میں ’کیمونسٹ منشور‘ کا مشہور جملہ ’دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ‘ درج ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/Schoening
بسمارک کی بجائےمارکس
مشرقی جرمن شہر فرسٹن والڈے کی اس یادگاری تختی پر کسی زمانے میں جرمن سلطنت کے پہلے چانسلر اوٹو فان بسمارک کی شبیہ ہوا کرتی تھی۔ 1945ء میں اُن کی جگہ کارل مارکس کی شبیہ نصب کر دی گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے فوراً بعد تانبے کی یہ تختی چوری ہو گئی تھی۔ 2003ء میں کافی بحث مباحثے کے بعد بالآخر سٹی کونسل نے بسمارک کی بجائے مارکس ہی کی نئی تختی لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Pleul
ایک اور متنازعہ مجسمہ
یہ مجسمہ تیس سال تک مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں یونیورسٹی کے مرکزی داخلی دروازے کے باہر نصب رہا۔ سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمن دور میں لائپسگ یونیورسٹی کارل مارکس یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ 2006ء میں تعمیر و مرمت کے دوران اس مجسمے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اسے نصب نہ کیا جائے۔ بالآخر ایک وضاحتی تحریر کے ساتھ اسے یونیورسٹی کے ژاہن الے کیمپس کے باہر نصب کر دیا گیا۔