سويڈن ميں امن مذاکرات، يمنی جنگ کے خاتمے کی اُميد
5 دسمبر 2018سعودی حمايت يافتہ يمنی حکومت کا ايک بارہ رکنی وفد وزير خارجہ خالد اليامانی کی قيادت ميں سعودی دارالحکومت رياض سے روانہ ہو چکا ہے اور بدھ کے روز سويڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم پہنچ رہا ہے۔ امن مذاکرات ميں شرکت کے ليے حوثی باغيوں کا ايک وفد ايک روز قبل اسٹاک ہوم پہنچ چکا ہے۔
يمن ميں جنگ بندی اور قيام امن کے ليے سن 2016 کے بعد اب مذاکرات ہو رہے ہيں اور اسی ليے بات چيت کے اس دور کو ايک بہترين موقع قرار ديا جا رہا ہے۔ جلا وطن يمنی صدر منصور ہادی کے دفتر کے مطابق حکومتی وفد قيام امن کے ليے يمنی عوام کی اميديں ليے ان مذاکرات ميں شرکت کر رہا ہے۔ حکومتی وفد نے اپنی روانگی ميں اس وقت تک تاخير کی، جب تک باغيوں کا وفد اسٹاک ہوم پہنچا نہیں کيونکہ اس سے قبل ستمبر ميں ايسے ہی ايک دور سے حوثی باغی دستبردار ہو گئے تھے۔ تاہم اس بار حوثی باغيوں کا وفد ايک کويتی جہاز پر صنعاء سے گزشتہ روز يعنی منگل کو اسٹاک ہوم پہنچ چکا ہے۔ حوثی باغيوں کے بارہ رکنی وفد کی سربراہی کرنے والے محمد عبدلاسلام کے مطابق وہ قيام امن اور تشدد کے خاتمے کے ليے منعقد ہونے والے مذاکرات کے اس دور کو کامياب بنانے کے ليے ہر ممکن کوشش کريں گے۔
فی الحال يہ واضح نہيں کہ مذاکرات کا يہ دور کب سے شروع ہو رہا ہے ليکن يمنی حکومت کے ايک ذريعے کے مطابق يہ جمعرات سے شروع ہو سکتے ہيں۔ امريکی محکمہ خارجہ نے يمن ميں قيام امن کے ليے اس کاوش کو ايک اہم پہلا قدم قرار ديتے ہوئے فريقين کو پر تشدد کارروائياں ترک کرنے کا کہا ہے۔ يمنی حکومت کی حمايت کرنے والے ايک اور ملک متحدہ عرب امارات نے بھی ان مذاکرات کو اہم قرار ديا ہے۔
دريں اثناء منگل کے روز يمنی حکومت اور حوثی باغيوں کے درميان طے پانے والی ايک ڈيل کا اعلان بھی کيا گيا۔ ڈيل کے تحت يمنی حکومت کے ڈيڑھ سے دو ہزار فوجی اور باغيوں کے ايک سے ڈيڑھ ہزار اہلکاروں کو رہا کيا جانا ہے۔
اقوام متحدہ يمنی جنگ سے پيدا ہونے والی صورتحال کو موجودہ دور کا بد ترين بحران قرار ديتی ہے۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں