سوچا نہ تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو گی، پاکستانی مہاجر
شمشیر حیدر
1 اپریل 2017
کبھی پولیس انہیں لاٹھی چارج اور کتوں کی مدد سے واپس دھکیلتی ہے تو کبھی انسانوں کے اسمگلر ان سے پیسے چھین کر انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ سربیا میں پھنسے تارکین وطن کے لیے یہ باتیں معمول بن چکی ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کے خواہش مند ایسے ہزاروں تارکین وطن ’بلقان روٹ‘ بند ہونے کے بعد سے سربیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سربیا میں آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو باقاعدہ شمار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک عراق اور شام سے ہے۔
یورپ میں پناہ کے متلاشی یہ لوگ اقوام متحدہ اور سربیا کی حکومت کی جانب سے بنائے گئے کیمپوں میں بھی رہ رہے ہیں لیکن ہزاروں ایسے بھی ہیں جنہیں مشرقی یورپ کی شدید سردی میں بھی کھلے آسمان تلے رہنا پڑ رہا ہے۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
8 تصاویر1 | 8
مغریی یورپ نہ پہنچ سکنے اور سربیا کے حالات سے مایوس ان تارکین وطن میں پائی جانے والی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات کبھی مہاجرین کے باہمی جھگڑوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی دشوار گزار اور کڑی نگرانی والی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو جانے کی صورت میں۔
ایسی کوششوں کے دوران انہیں سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والا اکیس سالا نجم خان بھی بلغراد کے ایک پارک میں پناہ لیے ہوئے ہے اور کئی مرتبہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے نجم خان کا کہنا تھا، ’’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یورپی پولیس اتنی ظالم ہو سکتی ہے۔‘‘
نجم قریب دو ہفتے پہلے ہی بلغراد پہنچا تھا اس کا کہنا ہے کہ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں پولیس اہلکار اس متروک عمارت میں داخل ہوئے جہاں وہ کئی دیگر تارکین وطن کے ہمراہ غیر قانونی طور پر مقیم تھا۔ نجم کے مطابق، ’’انہوں نے ہمیں مارا پیٹا، ہمیں تھانے لے گئے۔ پھر ہمیں کیمپ منتقل کرنے کے دوران بھی ہم پر تشدد کیا گیا۔‘‘
بلغاریہ سے سربیا آنے کے فوری بعد نجم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی لیکن ہنگری کے چوکنے سرحدی محافظوں نے انہیں روک لیا۔ نجم کا کہنا تھا، ’’انہوں نے ہمیں ایک قطار میں منہ کے بل لیٹنے پر مجبور کیا پھر ہمارے اوپر چلنے لگے اور قہقہے لگانے لگے۔ انہوں نے ہمارے چہروں پر شراب بھی پھینکی۔ ہمارے موبائل فون چھین کر انہیں توڑ ڈالا، لیکن ہمارے پیسے نہیں چھینے۔‘‘
سربیا، کروشیا اور ہنگری کی حکومتیں تارکین وطن کی جانب سے پولیس تشدد کے الزامات کی نفی کرتی ہیں۔ کروشیا کا کہنا ہے کہ انہیں کسی زیادتی کا ’کوئی ثبوت نہیں‘ ملا تو ہنگری کا کہنا ہے کہ اس کے سکیورٹی اہلکار ’انسانی وقار کو پیش نظر رکھ کر‘ تارکین وطن کو روکتے ہیں۔
تاہم پاکستانی تارکین وطن کے علاوہ افغان، شامی اور عراقی تارکین وطن نے بھی پولیس کی جانب سے ایسے پر تشدد برتاؤ کی شکایات کی ہیں۔ بلغراد میں ڈاکٹر وِد آؤٹ بارڈرز سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن آندریا کونتینتا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’سرحدوں پر نگرانی سخت ہونے کے بعد تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے پاس آنے والے نصف سے زائد مریض تشدد کی وجہ سے زخمی ہوتے ہیں۔‘‘