میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے حالیہ روہنگیا بحران کے بعد شورش زدہ صوبے راکھین کا پہلی مرتبہ دورہ کیا ہے۔ سوچی پر اس وقت شدید عالمی دباؤ ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے خاتمے کی کوشش کریں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو نومبر بروز جمعرات بتایا کہ میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے شمالی صوبے راکھین کا دورہ کیا اور وہاں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ راکھین میں قیام امن کی کاوشوں میں تیزی لائے جائے، تاکہ وہاں سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والی مقامی روہنگیا برادری کے لاکھوں افراد کی دوبارہ آباد کاری کا عمل شروع ہو سکے۔
اس سال پچیس اگست سے راکھین میں شروع ہونے والے تشدد کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان جان بچاتے ہوئے اس صوبے سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے میانمار میں اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف جاری کارروائیوں کو ’نسلی تطہیر‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ روہنگیا برادری کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کیا جائے۔
بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی اس ظلم و تشدد میں شامل رہیں جبکہ ملکی فوجیوں نے ان کے گھروں کو آگ لگائی، مردوں کو ہلاک کیا، عورتوں کو ریپ کیا اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
میانمار میں سن دو ہزار پندرہ کے الیکشن میں سوچی کی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ تب انتخابی مہم کے دوران سوچی نے راکھین کا دورہ کیا تھا۔ تاہم الیکشن میں کامیابی اور وہاں مقامی بدھ آبادی اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین شروع ہونے والے تنازعات کے بعد سے سوچی نے آج پہلی مرتبہ اس ریاست کے بحران زدہ حصے کا دورہ کیا ہے۔
میانمار میں اس حالیہ بحران کی وجہ سے نوبل امن انعام یافتہ سوچی کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بالخصوص اس بحران پر ان کی خاموشی پر کئی مبصرین کہہ چکے ہیں کہ ان سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے۔
اس تناظر میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری طرف کچھ ناقدین کا کہنا ہے اگر سوچی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں کوئی بیان دیتی ہیں، تو انہیں اپنے ملک میں فوج اور دیگر قوم پرست سیاستدانوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔
اس صورتحال میں میانمار کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ راکھین میں امن کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش میں ہے اور جلد ہی بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کو واپس بلایا جائے گا۔
یکم نومبر بروز بدھ ایک حکومتی بیان میں کہا گیا تھا کہ میانمار تیار ہے کہ بنگلہ دیش مہاجرت کرنے والے روہنگیا مسلمان واپس آ جائیں۔ اس بیان میں ڈھاکا حکومت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اس تناظر میں سستی دکھا رہی ہے کیونکہ وہ امدادی رقوم کی فراہمی سے قبل یہ کام نہیں کرنا چاہتی۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔