سوچی کا روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی تسلیم کرنے سے انکار
11 دسمبر 2019
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں روہنگیا اقلیت کی مبینہ نسل کشی کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت جاری ہے۔ اس مقدمے میں میانمار کی نمائندگی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی رہنما آنگ سان سوچی نے کی۔
اشتہار
آنگ سان سوچی نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف ہیگ کے ججز کےسامنے اپنے طویل بیان میں کہا کہ روہنگیا کا بحران میانمار کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس مناسبت سے گیمبیا نے نا مکمل اور گمراہ کن حقائق بیان کئے ہیں۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے سوچی نے کہا، ''اگر جرائم ہوئے ہیں تو قانون کے تحت ان کے خلاف ملکی قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج مسلح باغیوں کے خلاف ملک کا دفاع کر رہی تھی کیونکہ سن 2016 میں پولیس اسٹیشنوں پر حملے ہوئے تھے۔ سوچی عدالت کو یقین دلایا کہ جو جرائم کیے گئے ہیں، اُن میں ملوث سویلین افراد کے خلاف بھی مناسب کارروائی کی جائے گی۔
آنگ سان سوچی نے اپنے طویل بیان میں میانمار کی ریاست راکھین کی صورتحال کو پیچیدہ قرار دیا۔ انہوں اس کا بھی اعتراف کیا کہ وہ مسلمانوں کی تکالیف کو تسلیم کرتی ہیں اور اسی باعث وہ اپنی جان بچاتے ہوئے بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ سوچی کے مطابق گیمبیا نے اپنی درخواست میں راکھین ریاست کی پیچیدہ صورتحال کی نا مکمل اور گمراہ کن تصویر کشی کی ہے۔
سوچی نے بین الاقوامی عدالت کے ججوں کے سامنے اپنے طویل بیان میں لفظ روہنگیا یا مسلمان اقلیت استعمال کرنا بھی گوارا نہ کیا بلکہ لفظ غیر قانونی تارکین وطن، مہاجرین اور دہشتگرد کا لفظ استعمال کرتی رہیں۔ انھوں نے اس معاملے کو قطعی طور پر میانمار کا ایک داخلی مسسلہ قرار دیتے ہوئے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کر دیا۔
آنگ سان سوچی کے دفتر نے گزشتہ روز اُن کی دی ہیگ آمد کے حوالے سے دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ وہ قومی مفاد کا دفاع کرنے گئی ہیں۔ سوچی کی حمایت میں ینگون میں ہزاروں افراد نے ریلی بھی نکالی تھی۔
یاد رہے کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں منگل دس دسمبر کو استغاثہ کی جانب سے روہنگیا مسلمان خاندانوں کو مبینہ طور پر ان کے گھروں میں زندہ جلائے جانے، بڑے پیمانے پر عصمت دری اور درجنوں بچوں کو ذبح کرنے کا شواہد پیش کیے۔ یہ مقدمہ افریقی ملک گیمبیا کی جانب سے بدھ مت کے پیروکار ملک میانمار کے خلاف نومبر میں دائر کیا تھا۔ گیمبیا کے وزیر انصاف نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اُن کا ملک صرف یہ چاہتا ہے کہ میانمار یہ قتل و غارت گری بند کرے۔
یاد رہے کہ روہنگیا میں فوجی کریک ڈاون کے بعد سات لاکھ تیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش کی سرحد پرکیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میانمار کی جانب سے اس سے قبل بھی روہنگیا اقلیت کی اجتماعی عصمت دری اور ہلاکتوں کے تمام الزامات کی تردید کی جاتی رہی۔
ع ش ⁄ ع ح (اے ایف پی، اے پی)
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔