میانمار میں مسلسل دوسرے روز بھی ہزارہا افراد نے ملک بھر میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے خلاف اور منتخب سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کے حق میں کیے جا رہے ہیں۔
اشتہار
میانمار کی فوج نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو گزشتہ ہفتے گرفتار کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ ملک میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس کی معطلی کے باوجود ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کو 2007ء کے بعد سب سے بڑے مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے۔ تب بدھ مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں زعفرانی انقلاب کے تحت مظاہرے کیے گئے تھے اور جو ملک میں جموری اصلاحات کی بنیاد بنے تھے۔
'فوجی آمریت نہیں، جمہوریت چاہیے‘
ملک گیر احتجاج کے دوسرے دن میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ہزارہا افراد مظاہرے میں شریک ہوئے، جنہوں نے سرخ قمیضیں پہن رکھی تھیں اور سرخ پرچم اور سرخ غبارے اٹھائے ہوئے تھے، جو آنگ سان سوچی کی جماعت 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ (NLD) کا رنگ ہے۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ''ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے! ہمیں جمہوریت چاہیے!‘‘
آج اتوار کی سہ پہر فوجی رہنماؤں نے انٹرنیٹ پر لگی پابندی ختم کر دی کیونکہ یہ پابندی ملکی عوام میں مزید غم و غصے کا سبب بن رہی تھی۔ میانمار کی فوج نے پیر یکم فروری کو اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس پر نہ صرف سیاسی طور پر انتقال اقتدار کا راستہ رُک گیا بلکہ اس عمل کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔
تین انگلیوں کا سلیوٹ، فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کی علامت
میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون کے مختلف حصوں سے مظاہرین نے جمع ہو کر شہر کے مرکزی حصے میں واقع 'سُولے پگوڈا‘ کی طرف مارچ کیا۔ یہ علاقہ نہ صرف 2007ء کے زعفرانی انقلاب کے وقت مظاہروں کا مرکز رہا تھا بلکہ اس سے قبل 1998ء میں ہونے والے احتجاج کا بھی یہ مرکز تھا۔
مظاہرین اس موقع پر تین انگلیوں سے سلیوٹ کا اشارہ کر رہے تھے، جو فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کی علامت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
اس موقع پر مظاہرین اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے اور ان میں سوار لوگوں نے نوبل انعام یافتہ سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
مظاہرے میں شریک ایک 21 سالہ طالبہ تھا زِن نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم اپنی آئندہ نسل کے لیے آمریت نہیں چاہتے۔ ہم یہ انقلاب اس وقت تک جاری رکھیں گے، جب تک ہم تاریخ نہیں بنا دیتے، ہم آخر تک لڑیں گے۔‘‘
اشتہار
ینگون میں سب سے بڑے مظاہرے
اقتدار پر قابض فوجی قیادت کی طرف سے ان مظاہروں کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور نا ہی کوئی رد عمل سامنے آیا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے اسٹاف کی طرف سے بھیجی گئی ایک داخلی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت نِپ یادیو میں قریب ایک ہزار افراد مظاہرے میں شریک ہوئے تاہم ینگون میں مظاہرین کی تعداد 60 ہزار سے بھی زائد تھی۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
اس کے علاوہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ مظاہرے زیادہ تر پر امن رہے۔
میاواڈے نامی شہر میں تاہم جب یونیفارم میں ملبوس پولیس نے قریب دو سو افراد پر مشتمل مظاہرین کے بذور قوت منتشر کرنے کی کوشش کی تو فائرنگ کی آواز سنی گئیں ۔ اس بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی۔