1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتسوڈان

سوڈانی مہاجر کیمپوں میں چار ماہ میں بارہ سو بچے ہلاک

24 ستمبر 2023

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ افریقی ملک سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں مئی کے مہینے سے اب تک بارہ سو بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تباہ حال ملک میں ہزاروں نومولود بچوں کو موت کا خطرہ بھی ہے۔

دارفور سے تعلق رکھنے والے سوڈانی ماہجرین میں سے ایک بیمار بچہ جو اپنے والدین کے ہمراہ چاڈ میں پناہ گزین ہے
شیر خوار لیکن انتہائی کمزور اور بیمار، ایک سوڈانی مہاجر بچہتصویر: ZOHRA BENSEMRA/REUTERS

یونیسیف کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ سوڈان میں جاری بحران کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ صورت حال ملکی آبادی میں سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے سوڈانی بچوں کی صحت کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔

سوڈان تنازعہ: خرطوم بازار پر ڈرون حملے میں درجنوں افراد ہلاک

یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ظالمانہ لاپرواہی اور صحت اور غذائیت کے شعبوں میں عوامی خدمات کے اداروں پر اندھا دھند حملوں کے باعث یونیسیف کو خدشہ ہے کہ سوڈان میں آج سے لے کر سال رواں کے آخر تک مزید ہزارہا نومولود بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔‘‘

سوڈان ميں مسلح تنازعہ، جنسی تشدد کا وسيع تر استعمال

ایک سوڈانی مہاجر کیمپ کی رہائشی اور غذائیت کی شدید کمی کا شکار ایک دو سالہ بچیتصویر: Sam Mednick/AP Photo/picture alliance

اکتوبر سے دسمبر تک سوا تین لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش متوقع

پہلے برس ہا برس تک داخلی بے چینی اور اقتصادی بد حالی کے شکار اور اب کئی ماہ سے خونریز تنازعے کی زد میں آئے ہوئے ملک سوڈان میں اس وقت حاملہ خواتین کی تعداد اتنی ہے کہ اگلے ماہ اکتوبر سے لے کر دسمبر کے آخر تک وہاں تقریباﹰ تین لاکھ 33 ہزار بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب کا سوڈان میں نئی جنگ بندی پر زور

یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر کے الفاظ میں، ''اس ملک میں غذائی خدمات کے شعبے کی حالت پہلے ہی خراب تھی اور اب جنگ نے یہ حالت خراب تر کر دی ہے۔ یہی بات سب سے زیادہ تشویش کی وجہ ہے کہ سوڈان میں اب ان ہزارہا بچوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات ہیں، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔‘‘

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے کے مطابق سوڈان میں ہر ماہ 55 ہزار ایسے بچوں کو طبی دیکھ بھال کی ہنگامی ضرورت پڑتی ہے، جنہیں اکثر واقعات میں جان لیوا حد تک غذائیت کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘

سوڈان تنازعے سے پناہ گزینوں سے متعلق ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے

سوڈان میں ہر ماہ پچپن ہزار بچوں کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے، جو خطرناک حد تک غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A.G. Farran

سوڈانی تنازعے کے باعث سافٹ ڈرنکس کے ملٹی نیشنل تیار کنندگان پریشان، لیکن کیوں؟

جیمز ایلڈر کے مطابق، ''خرطوم میں ہر 50 غذائی مراکز میں سے ایک سے بھی کم ایسا ہے، جو واقعی کام کر رہا ہے۔ مغربی دارفور کے علاقے میں یہ تناسب ہر دس غذائی مراکز میں سے ایک بنتا ہے۔‘‘

چار ماہ میں بارہ سو بچوں کی ہلاکت

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق سوڈان کے صوبے سفید نیل میں اس ادارے کے کارکنوں نے 15 مئی سے لے کر 14 ستمبر تک 1200 سے زائد ایسے بچوں کی اموات ریکارڈ کیں، جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں اور جو اپنے اہل خانہ یا ان میں سے چند کے ہمراہ نو مختلف مہاجر کیمپوں میں مقیم تھے۔

سوڈان ٹوٹ رہا ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ

ہمسایہ افریقی ملک چاڈ میں سوڈانی مہاجرین کا ایک کیمپتصویر: Marie-Helena Laurent/WFP/AP/picture alliance
اپنی جانیں بچانے کے لیے لاکھوں سوڈانی مہاجرین چاڈ میں پناہ لیے ہوئے ہیںتصویر: ZOHRA BENSEMRA/REUTERS

اسی عرصے کے دوران ان کیمپوں میں خسرے کے تین ہزار ایک سو سے زائد کیسز بھی دیکھنے میں آئے جب کہ 500 واقعات میں کم سن بچوں کو مشتبہ طور پر ہیضے کی بیماری کا سامنا بھی رہا۔

یہی نہیں سوڈان میں مجموعی طور پر اور بہت سے مہاجر کیمپوں میں خاص طور پر حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ڈینگی بخار اور ملیریا کی متعدد وبائیں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں۔

سوڈان میں عسکری گروپوں کے مابین لڑائی جاری، 100ہلاکتیں

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فیلیپو گراندی تو حال ہی میں ایک بیان میں یہ بھی کہہ چکے ہیں، ''دنیا کے پاس اتنے وسائل اور اتنی رقوم ہیں کہ خسرے یا غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے ایسی تمام انسانی اموات میں سے ہر ایک کو روکا جا سکے۔ اس کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا یہ کہ سوڈان میں جاری ہلاکت خیز لڑائی فوراﹰ بند ہونا چاہیے۔‘‘

م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)

سوڈانی جرنیلوں کی اقتدار کی جنگ کی قیمت ادا کرتے عام شہری

03:38

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں