سوڈان: خواتین پر جنسی تشدد مظاہرین کے خلاف ایک حربہ
10 جون 2019
سوڈانی فوج خواتین اور مردوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملکی فوج ایسا عبوری عسکری کونسل کے کہنے پر کر رہی ہے۔ عرب ممالک میں جنسی تشدد کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
اشتہار
سوڈانی فوجی کی جانب سے دارالحکومت خرطوم میں حزب اختلاف کے ایک احتجاجی کیمپ کے خاتمے کے بعد متعدد خواتین نے جنسی استحصال کا نشانہ بنائے جانے کی شکایات کی ہیں۔ ان کے بقول انہیں کھلے عام سڑکوں پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران ایک سو سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یہ تشدد ایک منظم انداز میں کیا گیا اور شک ہے کہ اس میں نیم فوجی دستے (ریپڈ سپورٹ فورس یعنی آر ایس ایف) کے اہلکارملوث ہیں۔ آر ایس ایف میں بدنام جنجوید ملیشیا کے جنگجو بھی شامل ہیں، جو فوج کے حکم پر مزاحمت کرنے والی عوامی تنظیموں کے خلاف لڑنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
ایک عینی شاہد ناہید جبراللہ نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنائی جانے والی خواتین کی لاشیں دریائے نیل سے نکالی گئی ہیں۔
خواتین ایک علامت
سوڈان کے مختلف شہروں میں گزشتہ برس دسمبر کے وسط سے مظاہرے جاری ہیں۔ آلاء صلاح نامی ایک طالبہ ان پرامن مظاہروں کی ایک علامت بن کراس وقت ابھریں، جب سفید کپڑے، سنہری جھمکے اور ہوا میں ایک انگلی لہراتے ہوئی اس بائیس سالہ لڑکی کی تصویر دنیا بھر میں شائع ہوئی۔ سوڈانی خواتین ابتدا سے ہی ان مظاہروں میں شامل رہی ہے۔
فرانس میں خواتین کے امور پر تحقیق کرنے والے ایک مرکز سے وابستہ مایادا حبیب کہتی ہیں کہ اب حکام خواتین کو روکنا چاہتے ہیں، ''جنسی تشدد کو خواتین کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا 2011ء سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ سب کچھ بہت ہی منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شام میں اسد دستوں نے آٹھ ہزار خواتین کو حراست میں رکھا، تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ زیادتی کی۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ شاید سوڈان کی اُس مزاحمتی تحریک میں خواتین کا کرداربہت نمایاں رہا ہے، جس کے نتیجے میں طویل عرصے سے برسراقتدار صدر عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، ''شاید عسکری کونسل اسی وجہ سے خواتین سے بدلہ لینا چاہتی ہے‘‘۔ آر ایس ایف کی جانب سے جنسی زیادتیوں کے یہ واقعات سرگرم کارکنوں اور مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہیں۔
واضح پیغام
مایادا حبیب مزید کہتی ہیں کہ عبوری عسکری کونسل دانستہ طور پر عوام کے خلاف جنسی تشدد کا راستہ اپنا رہی ہے،''یہ مخالفین کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ یہ عسکری کونسل سوڈانی انقلابی تحریک کو ختم کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔‘‘
محققہ مایادا حبیب نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک خصوصی اجلاس میں سوڈانی بحران کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے آٹھ ارکان نے فوج کی جانب سے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی تھی۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ چین، روس اور کویت کی مخالفت کی وجہ سے ایک مشترکہ قرارداد منظور نہیں کی جا سکی، ''اس طرح سوڈانی فوجی کونسل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔‘‘
کم عمر فوجی، بچپن برباد اور زندگی خوفناک
سات یا آٹھ سال کی عمر میں انہیں منشیات کی عادت ڈال دی جاتی ہے اور اِن کے ذریعے لوگوں کو قتل کرایا جاتا ہے۔ اتنی کم عمری میں ہھتیار اٹھانے والے ایسے بچوں میں سے بہت کم ہی دوبارہ عام زندگی میں واپس لوٹ پاتے ہیں۔
تصویر: Jm Lopez/AFP/Getty Images
مسلح تنازعے میں شامل ہونے پر مجبور
بمباری سے تباہ ہونے والے یہ گھر، رشتہ داروں کی ہلاکتیں یا زخمی دوست، شامی شہر حلب میں جاری خانہ جنگی بھی بچوں کے ذہنوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس صورتحال نے بہت سے بچوں کو اس تنازعے کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا ہے اور اب یہ بھی اپنی زندگی بچانے کے لیے ہتھیار اٹھا کر لڑ رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. al Halabi
دہشت گردی کے نام پر
دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ بھی بچوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آئی ایس بچوں کو خود کش بمباروں کے علاوہ اپنے لیے انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh
صرف محاذ پر ہی نہیں
بچوں کی فلاح و بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق نو عمر بچوں کو باغیوں اور حکومت کی حامی حریف جنگجو تنظیمیں اپنا حصہ بناتی ہیں اور پھر انہیں مسلح تنازعات میں لڑنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ ان میں بچے اور بچیاں دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے یتیم اور بے سہارا بچوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور کچھ واقعات میں تو بچوں کو والدین سے زبردستی چھین بھی لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa Albadri
ڈھائی لاکھ بچے جنگوں کا حصہ
سوڈان، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور چاڈ چند ایسے ممالک ہیں، جن میں گزشتہ برسوں کے دوران بچوں کی ایک بڑی تعداد کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک میں تقریباً ڈھائی لاکھ بچے مختلف افواج اور باغیوں کی طرف جنگ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں تئیس ممالک کی ایسی باون جنگجو تنظیموں کے نام شامل ہیں، جو بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Azim
منشیات کا خوف اور فائدے
یونیسیف کی نِنیا شاربونو کہتی ہیں کہ افسوس کی بات ہے لیکن بچوں کو کسی بھی جنگ میں شامل کرنے کے بڑے فوائد ہیں۔ ’’بچوں کو آسانی سے قابو کیا اور استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ان پر اخراجات بھی زیادہ نہیں آتے۔ اس کے علاوہ وہ زیادہ تر منشیات کے نشے میں دُھت رہتے ہیں۔‘‘ یہ بچے اس خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں کہ حکم عدولی کرنے پر انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امن دستوں کی طرف سے مدد
ان میں سے کچھ بچے اپنے ناخداؤں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ کم عمر فوجی اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، جس کے بعد انہیں خوراک اور بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ایسے زیادہ تر بچے کم خوراکی، جنسی، نفسیاتی اور منشیات سے جڑی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی زندگی کا آغاز
یہ بچے اپنی بنیاد سے الگ کر دیے جاتے ہیں اور انہیں اپنے ماضی کے واقعات اور ذہنی مسائل پر قابو پانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ سے معاشرے کا حصہ بنایا جائے۔ اقوم متحدہ کے کیمپوں میں انہیں تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Langenstrassen
’فائٹنگ فار مائی لائف‘
شینا کائٹیٹسی یوگنڈا کے ایک جنگجو گروپ سے فرار ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔ اب بطور مصنفہ انہوں نے ماضی کے بہیمانہ واقعات کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ’فائٹنگ فار مائی لائف‘ نامی یہ کتاب انہوں نے ڈنمارک پہنچنے کے بعد تحریر کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نو عمر فوجی سے ہپ ہاپ اسٹار تک
عمانوئل جال کا بچپن بھی تنازعات کی نذر ہوا۔ وہ سوڈان کے ایک مسلح گروپ کا رکن تھا اور اب وہ ایک معروف ہپ ہاپ گلوکار بن چکا ہے۔ اس کے بقول اپنے ماضی کو فراموش کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’ریڈ ہینڈ ڈے‘
کم عمر بچوں کی مسلح تنازعات میں شمولیت کی روک تھام کے اقوام متحدہ کے کنونشن کی ڈیڑھ سو ممالک توثیق کر چکے ہیں۔ بارہ فروی 2012ء سے اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا۔ اسی وجہ سے ہر سال بارہ فروری کو ’ریڈ ہینڈ ڈے‘ منایا جاتا ہے۔
تصویر: imago
بچہ بچہ کب تک ہوتا ہے؟
اقوام متحدہ کے 1989ء کے کنونشن کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر بچوں کو’چائلڈ سولجر‘ کہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کسی مسلح تنازعے میں شامل یا اس میں تعاون کرنے والے 18 سال سے کم عمر کے تمام بچے ’چائلڈ سولجر‘ کہلاتے ہیں۔