1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان: سویلین حکومت بحال کرنے کی متعدد ملکوں کی اپیل

4 نومبر 2021

امریکا اور برطانیہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی سوڈان میں سویلین حکومت بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ گزشتہ ہفتے فوجی بغاوت میں وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو معزول کرکے دیگر رہنماوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا تھا۔

Sudan | Pro Demokratie Proteste in Khartoum
تصویر: Marwan Ali/AP/picture alliance

سوڈان کی حکمراں فوج کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے دونوں عرب ریاستوں نے بغاوت کے بعد اپنے بیانات میں صرف ملک میں استحکام پر زور دیا تھا۔ تاہم اب چار ممالک امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،”ہم سوڈان میں سویلین قیادت والی عبوری حکومت اور اداروں کی مکمل اور فوری طور پربحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔"

امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے،”ہم ملک میں ایمرجنسی کو ختم کرنے اور ان تمام افراد کی رہائی کی بھی اپیل کرتے ہیں جنہیں حالیہ واقعات کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔"  بیان میں مزید کہا گیا ہے،”نئے سوڈان میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اوراس مرحلے پر ہم تمام فریقوں کے درمیان موثر مذاکرات کی تائید کرتے ہیں اور تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سوڈان کے عوام کے لیے امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کو اپنی اولین ترجیح دیں۔"

فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہانتصویر: /AP/dpa/picture alliance

امریکا کی جانب سے مذمت

امریکا نے فوج کے ذریعہ 25 اکتوبر کو اقتدار پر قبضہ کرلینے کی مذمت کی ہے۔ فوجی بغاوت سے قبل سوڈان میں اس وقت ایک انتہائی نازک عبوری حکومت تھی، جس میں وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کی قیادت والی سویلین حکومت میں فوجی رہنما بھی شامل تھے۔ بغاوت کے بعد عبداللہ حمدوک کو پہلے گرفتار کیا گیا پھر انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ امریکا نے اس واقعے کے بعد سوڈان کو مجوزہ 700 ملین ڈالر کی مالی امداد فوری طورپر روک دی تھی۔

سوڈان کی فوج کو افریقی یونین کی طرف سے بھی دباو کا سامنا ہے۔ اس نے ”سویلین قیادت والی عبوری اتھارٹی کے موثر بحالی" تک سوڈان کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چاروں ملکوں کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں سوڈان کا پڑوسی مصر شامل نہیں ہے۔ بغاوت کے بعد ملک میں ہونے والے جمہوریت نواز مظاہروں میں لوگوں نے قاہرہ کے رویے پربھی ناراضی کا اظہار کیا۔

عبداللہ حمدوکتصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency

بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش جاری

امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشترکہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب سوڈان کے بحران کا بات چیت کے ذریعہ حل تلاش کرنے کی کوششیں کئی دنوں سے جاری ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک نئی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں اوراس کی قیادت عبداللہ حمدوک کو سونپی جا سکتی ہے۔

تاہم عبداللہ حمدوک کے دفتر نے بدھ کے روز ان خبروں کی تردید کی کہ وہ ایک نئی حکومت کی قیادت کے لیے رضامند ہو گئے ہیں اور زور دیا کہ معزول وزیر اعظم کسی طرح کی بات چیت میں اسی وقت شامل ہوں گے جب تمام گرفتار شدگان کو رہا اور حکومتی اداروں کو بحال کر دیا جائے گا۔

ایک فیس بک بیان میں انہوں نے کہا،”وزیر اعظم عبداللہ حمدوک، جنہیں فوجی حکام کی حکم پر ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیا گیا ہے، ان شرائط پر قائم ہیں کہ کسی طرح کی بات چیت شروع کرنے سے قبل تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے اور تمام آئینی اداروں کی 25 اکتوبر سے قبل کی حیثیت بحال کی جائے۔"

فوج نے حمدوک کو اپنے حامیوں سے بات چیت کرنے سے روک دیا ہے۔

تصویر: Mahmoud Hjaj/AA/picture alliance

مظاہرے اور ہلاکتیں

سوڈان میں سویلین حکومت کی بحالی اور فوجی حکومت کے خاتمے کے لیے متعدد شہروں میں مظاہرے ہوئے، جن میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا۔

پچیس اکتوبر کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے مظاہروں میں اب تک تقریباً ایک درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دارالحکومت خرطوم اور ملک کے دیگر اہم شہروں میں فوجی اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔

دریں اثنا فوجی سربراہ عبدالفتاح برہان نے دعویٰ کیا کہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے اسے اپنے ہاتھوں میں لینا ضروری ہوگیا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سیاسی رہنماوں میں اختلافات بہت بڑھ گئے تھے۔

خیال رہے کہ سن 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کو معزول کرنے کے بعد نئی سویلین حکومت کے انتخاب تک ملک کا نظام چلانے کے لیے فوجی اور سویلین رہنماوں پر مشتمل ایک عبوری کونسل قائم کی گئی تھی۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں