افریقی ملک سوڈان نے غیر مسلموں کو شراب پینے کی اجازت دینے کے ساتھ ہی مرتد کی سزائے موت کو ختم کرنے اور خواتین کے ختنے جیسی روایت پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
سوڈان کی نئی حکومت نے گزشتہ تقریبا ًچالیس برسوں سے نافذ سخت اسلامی قوانین میں بعض نرمیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ غیر مسلموں کو ہنگامہ اور فساد برپا نہ کرنے کی شرط پر شراب پینے کی اجازت دی جائے گی۔
سوڈان میں شرعی قوانین کے مطابق مرتد کی سزا موت ہے تاہم ملک کے وزیر انصاف نصیر الدین عبد الباری نے ایسے قوانین میں اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو ختم کیا جائے گا اور خواتین کے ختنے جیسی روایات پر پابندی عائد کی جائے گی۔
سوڈان میں عمر البشیرکی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے جس کے بعد تقریباً تیس برس بعد ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے ایک برس بعد ان اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے۔
ملک کے وزیر انصاف نصیرالدین عبد الباری نے سرکاری ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ اب سوڈان ''غیر مسلوں کو اس شرط پر شراب پینے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس سے امن امان کو خراب نہیں کریں گے اور سر عام شراب پینے سے گریز کریں گے۔''
سوڈان کے سابق صدر جعفر النمیری نے سن 1983 میں ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے شراب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے شراب پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے دارالحکومت خرطوم میں وہسکی کی بوتلیں دریائے نیل میں غرق کردی تھیں۔ شرعی قوانین کے مطابق مسلمانوں کے لیے شراب پینا حرام ہے تاہم مسلم اکثریتی ملک سوڈان میں مسیحی برادری کی بھی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔
سوڈان نے مرتد ہونے کی سزائے موت کو ختم کرنے اور خطے میں خواتین کے ختنے کے چلن کو بھی ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ افریقی ممالک میں مسلم اور عیسائی برادری سمیت تقریبا ًتمام مذاہب کی خواتین کے ختنے کی روایت عام ہے۔ بچوں کی فلاح و بہود کے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق 86 فیصد سے بھی زیادہ سوڈانی خواتین اس رسم کا شکار بنتی ہیں۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
8 تصاویر1 | 8
حکومت نے ان اصلاحات کے تحت اس قانون میں بھی تبدیلی کا وعدہ کیا ہے جس کے تحت خواتین کو اپنے بچوں کے ساتھ باہر سفر پر جانے کے لیے اپنے مردوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اب ایسے سفر کے لیے خواتین کو اپنے شوہروں سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بشیر حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی سوڈان کی عبوری حکومت میں وزیر انصاف عبد الباری نے ارتداد سے متعلق کہا، ''کسی بھی شخص کو کسی فرد یا پھر گروپ پر کفر کا فتوی صادر کرنے کا حق نہیں ہے۔۔۔ اس سے معاشرے کا تحفظ اور سکیورٹی کے خطرے میں پڑنے کا خدشہ ہے اوراس سے انتقامی قتل و غارت گری کو فرغ ملتا ہے۔''
ایک طویل احتجاج کے بعد ملک کی فوج اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت قائم ہونے والی عبوری حکومت اب تک اس طرح کی کئی اصلاحات کا اعلان کر چکی ہے۔ یہ حکومت باقاعدہ حکومت کے قیام سے پہلے تین برسوں کے لیے ہے اور اس دوران اس حکومت نے اپنے آئین میں اسلامی حکومت جیسے الفاظ کو نکال دیا ہے۔ اس سے قبل کی سوڈانی حکومت اپنے آپ کو اسلامی ریاست کہتی تھی۔
اس ماہ کو اوئل میں انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران اقتدار میں زیادہ سے زیادہ عوامی شراکت داری کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے اس سمت میں بھی کئی اصلاحات کا وعدہ کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز اے ایف پی)
صحراؤں میں سے راستہ بناتا دریائے نیل
گوئٹے انسٹیٹیوٹ سوڈان کی تیار کردہ ایک نمائش آج کل جرمن شہر ڈاساؤ کے وفاقی دفتر ماحولیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ تین ابھرتے ہوئے فوٹوگرافرز نے کیمرے سے اتری ہوئی اپنی ان تصاویر میں نیل کے ساتھ ساتھ آباد بستیاں دکھائی ہیں۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
’رشید‘ نامی شہر میں آباد ایک خاندان
یہ فوٹوگرافرز سیاسی تنازعات کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔ محمود یاقوت نے ’رشید‘ میں بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا ہے، جہاں زیادہ تر خاندان زراعت پیشہ ہیں۔ نیل ڈیلٹا کی زرخیز زمینیں ان انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
تصویر: Mahmoud Yakut
نیل پر مچھلی کے فارم
مصری شہر ’رشید‘ کے پاس دنیا کا یہ طویل ترین دریا بحیرہٴ روم میں جا کر گرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انسانوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ لکڑی سے بنائے گئے فِش فارم پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جن پر چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنی ہوتی ہیں۔ ہر جھگی میں ایک بستر اور ایک چھوٹے سے کچن کی جگہ ہوتی ہے۔ خاندان کا ایک فرد اس متحرک فارم کی نگرانی کرتا ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
شہر کی زندگی
’رشید‘ میں ماضی اور حال آپس میں ملتے ہیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے اس بندرگاہی شہر کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تاریخ اور کاروبار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی بہت سادہ ہے۔ مصری شہر ’رشید‘ اپنے باسیوں کی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کے لیے مشہور ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
خواتین کا کردار
’رشید‘ میں خواتین عام طور پر گھر پر رہتی ہیں، امورِ خانہ داری انجام دیتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ روایتی تندوروں میں روٹی بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین بازار میں سبزیاں اور گھر میں تیار کیا گیا پنیر بھی فروخت کرتی ہیں۔ غربت کے باوجود یہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ بانٹنا اُن کی زندگی کے فلسفے میں شامل ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
تخلیق کی لیبارٹری
ان فوٹوگرافرز کو 2013ء کے موسمِ گرما میں ایک ورکشاپ کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب یہ نمائش پہلی مرتبہ جرمن سرزمین پر دکھائی جا رہی ہے۔ سوڈان کے الصادق محمد کو برتن بنانے کے فن سے بہت دلچسپی ہے۔ نیل کے ساتھ ساتھ مٹی سے برتن بنانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ الصادق کے خیال میں اس فن میں فنکار اور اُس کی تخلیق میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
زندہ دریائے نیل
دریائے نیل کے ساتھ ساتھ صدیوں سے برتن بنانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ اسوان ڈیم بننے تک یہ حال تھا کہ دریا میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا۔ خاص طور پر آج کل کے حالات میں پانی بہت ہی قیمتی چیز بن چکا ہے۔ یہ دریا مصری سرزمین کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تبدیلی کی بھی علامت ہے۔ لوگ آبی وسیلے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل اور توانائی کے لیے بھی نیل پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
انتہائی قدیم روایات
مٹی سے بنے برتن کارآمد بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت بھی۔ صدیوں کے سفر میں اس فن میں نئی نئی اشکال وجود میں آئی ہیں۔ آج کل نُوبیا کے علاقے میں بننے والے برتن دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نمائشوں کی زینت بنتے ہیں اور سوڈان کے اس علاقے کی ثقافت اور تاریخ کی وہ داستانیں سناتے ہیں، جن پر نیل کی بہت گہری چھاپ موجود ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
نیلے دریا کے کنارے عاجزی کے سبق
بروک زیرائی مینگستُو کے ہمراہ ہم نیل کے اس سفر میں ایتھوپیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایتھوپیا میں جنم لینے والے اس نیلے دریا کے ساتھ ساتھ انتہائی ابتدائی دور کی مسیحیت سے جڑی انجیل کے طالب علموں کی ایک کمیونٹی ملتی ہے۔ روحانی مرتبہ حاصل کرنے اور لوگوں کے مسیحا بننے کے لیے یہ طلبہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی تنہائی کا راستہ خود چنتے ہیں اور ان کی تعلیم چَودہ برسوں میں مکمل ہوتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
انجیل کے طالب علم
وقتاً فوقتاً یہ طالب علم اپنی تنہائی سے نکل کر قریبی دیہات کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے خوراک مانگ کر لا سکیں۔ گداگری اُنہیں عاجزی سکھاتی ہے۔ اِن طالب علموں کا عقیدہ ہے کہ عاجزی روحانی قوت کا سرچشمہ بنتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
یکتائی اور ابدیت
دریائے نیل کا ایتھوپیا میں واقع حصہ یکتائی اور ابدیت کی علامت ہے۔ شہروں سے دور یہ نیلا دریا وسعت اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ خرطوم کی ورکشاپ کے شرکاء اپنے اپنے ملکوں کے سفر پر گئے، جن میں بہت سے آج کل جنگوں اور تنازعات کی زَد میں ہیں۔ متاثر کن تصاویر کی یہ نمائش ستائیس مئی تک جاری رہے گی۔