سوڈان میں قدرتی دولت پر قبضے کی جنگ، کون سا ملک کس کے ساتھ؟
23 نومبر 2025
سوڈان میں اپریل 2023 میں شروع ہونے والی یہ خانہ جنگی ملکی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جاری ہے۔ یہ تنازع اکتوبر کے آخر میں آر ایس ایف کے دارفور کے بڑے شہر الفاشر پر قبضے کے بعد مزید شدید ہو چکا ہے۔
علاقائی ماہرین کے مطابق سوڈان کی فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکی کی حمایت حاصل ہے، جبکہ آر ایس ایف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی سرپرستی میں ہے۔
تمام فریقین براہ راست مدد کے الزامات مسترد کرتے ہیں لیکن اس تنازعے میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور قریب ایک کروڑ 20 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ وہاں دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک جنم لے چکا ہے۔
زرعی زمین اور تجارتی راہداری
صحرائی خلیجی ممالک کی نظریں افریقہ کے تیسرے بڑے ملک سوڈان کی زرخیز زمینوں پر ہیں، جو ممکنہ طور پر زرعی پیداوار کے حوالے سے مرکز بن سکتا ہے۔ جنگ سے قبل یو اے ای نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، اماراتی کمپنیاں ہزاروں ہیکٹر اراضی کی مالک تھیں، جبکہ سوڈان کی زرعی مصنوعات یو اے ای کو برآمدات کا ایک بڑا حصہ تھیں۔
سن 2019 میں عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹے جانے سے قبل سعودی عرب اور قطر بھی زراعت میں بڑی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر گفت و شنید کر چکے تھے۔
سوڈان کی بحیرہ احمر کی ساحلی پٹی میڈیٹیرینین کو بحر ہند سے ملاتی ہے، جس سے عالمی سمندری ٹریفک، سلامتی اور تجارت کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ اٹلانٹک کونسل کی محقق عالیہ ابراہیمی کہتی ہیں کہ عالمی تجارت کا 10 سے 12 فیصد سامان اس راہداری سے گزرتا ہے۔
یو اے ای کے علاوہ روس اور ترکی بھی سوڈان میں بندرگاہوں کے معاہدے یا نیول بیس حاصل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں، مگر وہ مذاکرات یا تو ناکام ہوئے یا معطل ہیں۔
یو اے ای اور اس کے اتحادیوں کا کردار
یہ تنازع شروع ہوتے ہی فوج کی حامی حکومت نے یو اے ای سے سفارتی تعلقات توڑ دیے اور ابوظہبی پر آر ایس ایف کی حمایت کا الزام لگایا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ یو اے ای چاڈ، لیبیا، کینیا یا صومالیہ کے راستے اسلحہ اور کراءے کے جنگجو بھیج رہا ہے۔ یہ وہ الزامات ہیں، جو ابوظہبی مسترد کرتا ہے۔
مئی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بموں کے ملبے کی تصاویر کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ یو اے ای نے آر ایس ایف کو چینی ساختہ اسلحہ فراہم کیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق چاڈ کے مشرقی شہر ام جرس کا ہوائی اڈہ یو اے ای کارگو طیاروں کا مرکز رہا۔
کچھ عرصے سے خلیفہ حفتر کے کنٹرول والا مشرقی لیبیا بھی ایسی پروازوں کا مرکز بن چکا ہے۔ گلوبل انیشی ایٹیو کے محقق عماد الدین بدی کہتے ہیں کہ جون سے اب تک 200 سے زائد فوجی کارگو پروازیں بن غازی اور کُفرا میں اتریں۔
امریکی واچ ڈاگ دی سینٹری کی رپورٹ کے مطابق حفتر یو اے ای کی ''گہری وفاداری‘‘ کی وجہ سے آر ایس ایف کو ایندھن فراہم کرتے رہے ہیں۔
سونے کی پیاس
سن2011 میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد سونا سوڈان کی برآمدات کا مرکزی ستون بن گیا۔ جنگ سے قبل سالانہ 80 ٹن سے زائد سونا پیدا ہوتا تھا، جبکہ 2021ء میں 2.85 ارب ڈالر کا سونا برآمد ہوا۔
جنگ کے بعد سرکاری پیداوار گر گئی اور غیر قانونی کان کنی و سمگلنگ کے نیٹ ورکس غالب آ گئے۔ چیٹم ہاؤس نامی برطانوی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ فوج اور آر ایس ایف کے درمیان سونے کی کانوں اور تجارت پر مقابلہ اس جنگ کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔
مصر کے راستے آنے والا ملکی فوج کا سونا ہو یا پھر لیبیا کے راستے آر ایس ایف کا، زیادہ تر یہ سونا دبئی ہی پہنچتا ہے۔ سوئس این جی او 'سوئس ایڈ‘ یو اے ای کو ''مشکوک سونے کا عالمی مرکز‘‘ قرار دیتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یو اے ای میں ماضی کے مقابلے میں سن 2024 میں سوڈان سے 70 فیصد زیادہ سونا درآمد کیا گیا۔
اٹلانٹک کونسل کی عالیہ ابراہیمی کہتی ہیں کہ سونا نہ صرف جنگجوؤں کی وفاداریاں خریدتا ہے بلکہ میزائل اور ڈرونز کی خریداری بھی کرتا ہے اور متعدد فریقین کو جنگ جاری رکھنے کا معاشی مفاد دیتا ہے۔
ڈرونز کی فراہمی
ایران کے ساتھ ترکی نے بھی سوڈان کی فوج کو طویل رینج والے ڈرونز فراہم کیے، جنہوں نے مارچ میں دارالحکومت خرطوم کوآر ایس ایف سے واپس لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اب آر ایس ایف نے اپنا فضائی دفاع مضبوط کر لیا ہے۔
سوڈان کی فوج یو اے ای پر چینی ساختہ ڈرونز آر ایس ایف کو فراہم کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایسوسی ایٹ محقق تھیئری ورکولاں کہتے ہیں، ”تنازعے کے آغاز سے ہی آر ایس ایف نے کرائے کے غیر ملکی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد بھرتی کر رکھی ہے۔" ان کے مطابق روسی، شامی، کولمبین اور افریقہ میں ساحل کے خطے کے ممالک کے بہت سے افراد آر ایس ایف کی تنخواہ پر ہیں۔
ادارت: مقبول ملک