سوڈان کے عبوری رہنما عبدالفتح برہانی نے سوڈان میں کرفیو کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب سوڈان میں عمرالبشیر کی حکومت کے خاتمے کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اشتہار
سوڈان کی عبوری عسکری کونسل کی جانب سے آج ہفتہ 13 اپریل کو اعلان کیا گیا ہے کہ سابق صدر عمرالبشیر کے خلاف مظاہروں کے تناظر میں گرفتار کیے گئے تمام سیاسی قیدی رہا کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی ضمانتوں سے متعلق قوانین کے نفاذ کا اعلان بھی کیا۔
سوڈان پر قریب 30 برس حکومت کرنے والے عمرالبشیر کے خلاف زبردست عوامی مظاہروں کے تناظر میں ملکی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جب کہ اس وقت عسکری کونسل کے رہنما برہانی فی الحال عبوری سربراہِ حکومت ہیں۔ ہفتے کے روز انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ دو برس کے عرصے میں حکومت ملک کے سویلین نمائندوں کے حوالے کر دی جائے گی۔
عبوری رہنما نے سوڈان کی تمام سیاسی جماعتوں اور تحریکوں سے کہا کہ وہ مذاکرات کا راستہ اپنائیں اور تشدد سے اجتناب برتیں۔ واضح رہے کہ عواد ابن الرؤف کی جانب سے جمعے کے روز عسکری کونسل سے مستعفی ہو جانے کے بعد برہانی نے عبوری رہنما کے بہ طور ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ عواد ابن الرؤف عمر البشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد صرف ایک روز تک عبوری رہنما رہے تھے۔
دوسری جانب دارالحکومت خرطوم میں واقع فوجی ہیڈکوارٹرز کے ارد گرد ہزاروں مظاہرین جمع ہیں۔ ان افراد نے سوڈانی پرچم اٹھا رکھے ہیں اور ایک جشن کا سا سماں ہے۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
8 تصاویر1 | 8
مظاہرے میں شامل 30 سالہ نوحہ عبدل نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، ’’میں کل سے اپنی دو بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ یہاں ہوں۔ جب تک ملک میں سویلین حکومت قائم نہیں ہوتی، ہم یہیں رکیں گے۔‘‘
عبد الرباب نامی ایک 55 سالہ شخص کے مطابق انہوں نے اپنی نصف زندگی عمرالبشیر کے دور میں گزاری دی، جو ایک ’بری حکومت‘ تھی۔
ان کا کہنا تھا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں باہر پھینک دیا جائے اور ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہو۔ ایک ایسی حکومت قائم ہو جو نئی نسل کے امنگوں کی ترجمان ہو۔ یہ نسل سابقہ حکومت سے براہ راست متاثر ہوئی۔‘‘
دوسری جاب مختلف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں فوج کی طرف سے ملکی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کو مسترد کر دیا ہے۔