سوڈان میں مظاہرے، عمرالبشیر کی حکومت مشکلات کی شکار
26 دسمبر 2018
سوڈان میں گزشتہ کئی دنوں سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں کے شرکاء صدر عمر البشیر کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
اشتہار
سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کے حامل افریقی ملک سوڈان میں مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی شدید قلت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ ہفتے کے دوران شروع ہوا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔ منگل کو ملکی صدر کی رہائش گاہ کے قریب مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
مختلف عینی شاہدین سے جمع کردہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کا استعمال کیا۔ اس پولیس ایکشن کی وجہ سے کئی سو مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ طبی حلقوں کے مطابق کم از کم آٹھ افراد کو گولیاں لگی ہیں۔ خرطوم شہر کی سبھی سڑکوں اور چوراہوں پر سکیورٹی فورسز کے اضافی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔
مظاہرین آزادی آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان مظاہروں کو انتیس برس سے برسراقتدار صدر عمرالبشیر کے لیے شدید خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ان مظاہروں کے شرکاء صدر عمر البشیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے اس تحریک کو سن 2011 کی عرب اسپرنگ کی بازگشت قرار دیا ہے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر خرطوم حکومت نے اپوزیشن کے 16 رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے، جن میں چودہ کا تعلق بائیں بازو سے بتایا گیا ہے۔ البشیر حکومت کا خیال ہے کہ ان مظاہروں کے پس پردہ بائیں بازو کے عناصر زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ اس تناظر میں اس حلقے کو خصوصی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔
ان مظاہروں کو تحریک دینے والی زیادہ تنظیمیں پیشہ ور یونینز ہیں۔ ان کو اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت امہ و جمہوریت یونینسٹ بھی سرگرم ہے۔ ان سب کا متفقہ مطالبہ ہے کہ سن 1989 سے سوڈان پر برسراقتدار عمر البشیر اب منصب صدارت سے دستبردار ہو جائیں۔ منگل پچیس دسمبر کی شام میں مظاہرے کے منتظمین کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھی کہا گیا کہ صدر عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششوں کو تقویت دی جائے گی۔
خرطوم مظاہروں کا سلسلہ انیس دسمبر سے شروع ہیں۔ مظاہرین اشیائے خور ونوش کی قلت اور ایندھن کے ساتھ ساتھ عام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے بہا اضافہ کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ شروع ہوئے تھے اور اب اس تحریک میں صدر عمر البشیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سوڈان کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔