1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان میں 72 گھنٹے کی جنگ بندی، مصری سفارت کار ہلاک

25 اپریل 2023

سوڈان میں فریقین سرگرم مذاکرات کے بعد 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں اور متعدد ملکوں کی جانب سے وہاں سے اپنے شہریوں کو نکالنے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس دوران خرطوم میں ایک مصری سفارت کار ہلاک ہو گیا۔

Rückführung französischer Staatsangehöriger aus dem Sudan
تصویر: État-major des armées

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بتایا کہ امریکہ اور سعودی عرب کی سہولت کاری سے سوڈان میں باہم متحارب فریقین پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق آدھی رات سے اگلے 72 گھنٹے کے لیے جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں۔

انٹونی بلنکن نے بتایا کہ دو دن کے سرگرم مذاکرات کے بعد جنگ بندی معاہدہ ہوا۔ سوڈان کی فوج اور متحارب نیم فوجی دستہ ریپیڈ سپورٹ فورسز کے درمیان گزشتہ ہفتے کئی عارضی جنگ بندی معاہدے کامیاب نہیں رہے تھے۔

سوڈان میں دونوں فوجی جرنیلوں کے درمیان رسہ کشی کے نتیجے میں اب تک 400 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

سوڈان میں نیم فوجی فورسز عید پر 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر متفق

آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے دوران وہ انسانی بنیادوں پر شہریوں کو محفوظ علاقوں اور ہسپتالوں تک آمد و رفت میں مدد کرے گی۔ وہ سفارتی مشنوں کو اپنے شہریوں کے انخلاء میں بھی مدد کرے گی۔

مصری سفارت کار ہلاک

مصر کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ خرطوم میں اس کے سفارت خانے میں تعینات معاون انتظامی اتاشی وہاں جاری لڑائی کے دوران مارے گئے۔

وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، "محمد الغروی سوڈان میں پھنسے ہوئے مصریوں کے انخلاء میں مدد کرتے ہوئے اس وقت گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے جب وہ سفارت خانے کی طرف جا رہے تھے۔"

ان کی ہلاکت کی خبر سب سے پہلے سوڈانی فوج نے دی۔ اس نے تاہم اپنے بیان میں کہا کہ مصری سفارت خانے کے معاون انتظامی اتاشی نیم فوجی دستے ریپیڈ سپورٹ فورسز کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ میں مارے گئے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا کہ جنگ کی وجہ سے کھانے، صاف پانی، دوائیں اور ایندھن کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہےتصویر: AA/picture alliance

فریقین سے جنگ بندی پر عمل کرنے کی اپیل

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ "امریکہ سوڈانی فوج (ایس اے ایف) اور ریپیڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) سے درخواست کرتا ہے کہ جنگ بندی کے دوران اس پر فوراً اور مکمل عمل کریں۔ جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک پائیدار حمایت کے طور پر امریکہ علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں اور سوڈانی سویلین اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔"

خیال رہے کہ فوج اور آر ایس ایف کے درمیان 15اپریل کو جنگ شروع ہوئی تھی جس میں اب تک کم از کم 427 افرا د ہلاک ہو چکے ہیں۔

فریقین کے درمیان فائرنگ کی وجہ سے ہسپتال اور دیگر خدمات متاثرہوئے ہیں اور رہائشی علاقے وار زون میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ خرطوم میں لاکھوں افراد پھنسے ہوئے ہیں اور خوراک اور پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگوٹیریش نے کہا کہ "ایک ملک میں تشدد کا اثر بحراحمر، قرن افریقہ اور ساحل خطوں پر پڑ رہا ہے اور یہ پورے خطے کے ساتھ ساتھ اس سے باہر کے علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔"

اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے بتایا کہ جنگ کی وجہ سے کھانے، صاف پانی، دوائیں اور ایندھن کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ مواصلات اور بجلی تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ عام ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

متعدد ملکوں نے اپنے شہریوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالنے کا سلسلہ شروع کردیا ہےتصویر: The Yomiuri Shimbun/AP/picture alliance

غیر ملکی شہریوں کا انخلاء جاری

متعدد ملکوں نے اپنے شہریوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریس نے بتایا کہ آخری طیارے کے آنے تک 400 سے زائد جرمن شہریوں کو سوڈان سے نکال لیا جائے گا۔

جرمن سفارتی عملے کو سوڈان سے باہر نکالنے کی کارروائی شروع

دو فرانسیسی طیارے بھی مختلف ملکوں کے تقریباً 200 شہریوں کو لے کر جبوتی پہنچے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے بتایا کہ اب تک مجموعی طورپر 300 افراد کو نکال چکے ہیں۔ آئرلینڈ بھی اپنے شہریوں کو سوڈان سے نکالنے کے لیے ہنگامی ٹیم روانہ کررہا ہے۔

امریکہ نے اتوار کو بتایا تھا کہ اس نے اپنے تقریباً  100 شہریوں کو سوڈان سے نکال لیا ہے۔ ان میں امریکی حکومت کے اہلکار اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں۔

جاپان نے بتایا کہ اس نے اپنے تقریباً تمام شہریوں کو سوڈان سے نکال لیا ہے اور خرطوم میں اپنا سفارت خانہ عارضی طور پر بند کردیا ہے۔

سوڈان میں جنگ بندی کی کوششیں: پیراملٹری رضامند، فوج ’لاعلم‘

02:11

This browser does not support the video element.

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں