سوڈان: کیا غیر ملکی طاقتیں جنگ روک بھی سکتی ہیں؟
9 نومبر 2025
بیرونی حمایت کے بغیر، سوڈان کے کسی بھی فریق کے لیے جنگ کو اتنے عرصے تک جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ یہ تنازعہ ملک کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک میں تبدیل کر چکا ہے اور حالیہ دنوں میں دارفور کے علاقائی دارالحکومت الفاشر میں سوڈانی شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور مظالم کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ جنگ اپریل 2023 میں شروع ہوئی جب مقامی ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) اور سوڈانی مسلح افواج (SAF) کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوا کہ نیم فوجی RSF کو باقاعدہ فوج میں کیسے ضم کیا جائے۔
لڑائی کا مرکز دارفور خطہ
چونکہ دارفور میں لڑائی جاری ہے، اس لیے ہلاکتوں کی درست تعداد معلوم نہیں، لیکن امدادی ادارے اور اقوام متحدہ اس تعداد کو ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد قرار دیتے ہیں۔ سوڈان کی آبادی کا تقریباً نصف ہیومینیٹیرین امداد پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم اس مسلح تنازعے کی وجہ سے قحط، بیماری، بنیادی ڈھانچے اور زرعی زمینوں کی تباہی عام ہو چکی ہے۔
مبصرین کے مطابق سوڈان کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت، جس کی قیادت جنرل عبدالفتاح برہان کر رہے ہیں، کو مصر، ترکی، روس اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔ آر ایس ایف کو یو اے ای کی پشت پناہی حاصل ہے، اگرچہ امارات نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
جرمن تحقیقی ادارے جرمن انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل اینڈ ایریا اسٹڈیز کی محقق ہاگر علی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''ریپڈ سپورٹ فورسز کو جنگ کے دوران ہتھیاروں اور ایندھن کے متعدد ذرائع سے مدد ملی، لیکن سب سے اہم فراہم کنندہ متحدہ عرب امارات رہا ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات کا متنازع کردار
یو اے ای نے بارہا آر ایس ایف کی حمایت کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور انہیں سوڈانی فوج کی جانب سے میڈیا مہم قرار دیتے ہوئے معذرت کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ جمعرات کو ابوظہبی نے شہریوں کے خلاف آر ایس ایف کے مظالم کی مذمت کی اور تقریباً 86 ملین یورو کی امداد کا اعلان کیا۔
تاہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد بار یو اے ای سے اسلحے کی فراہمی کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ آزاد ماہرین کے مطابق آر ایس ایف کے زیر استعمال بیشتر ہتھیار اور گولہ بارود اماراتی ساختہ ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، امریکی دفاعی اور خارجہ انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ آر ایس ایف کو دیے گئے مواد میں چینی ساختہ جدید ڈرونز، ہلکے و بھاری ہتھیار، گاڑیاں، توپیں، مارٹر اور گولہ بارود شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنوری 2024 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ لیبیا کے جنرل خلیفہ حفتر سے منسلک ملیشیا گروپ اپنے پرانے اسمگلنگ نیٹ ورک کے ذریعے آر ایس ایف کو ایندھن، گاڑیاں اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
ہاگر علی کے مطابق، ’’ہم جانتے ہیں کہ یو اے ای نے اسلحہ لیبیا کی سرحد کے راستے سوڈان پہنچایا ہے اور کبھی کبھار چاڈ اور یوگنڈا کے ذریعے بھی۔ اس کے بدلے میں یو اے ای، جو سوڈانی سونے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، سوڈان کے سونے تک رسائی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
آر ایس ایف کے لیے سونا، جو زیادہ تر اس کے زیر قبضہ علاقوں میں ہے، ہتھیار خریدنے اور پابندیوں سے بچنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
امریکی پابندیاں
رواں برس جنوری میں امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے دونوں فریقوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس دوران امریکی وزارت خزانہ نے یو اے ای کی سات کمپنیوں کو بھی نشانہ بنایا جن پر آر ایس ایف کو اسلحہ، مالی معاونت اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا الزام تھا۔
دیگر ممالک کے مفادات
مصر، جو جنرل برہان کی حکومت کو سوڈان کی جائز حکومت تسلیم کرتا ہے، سوڈانی مسلح افواج کا بڑا حامی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف وار کے مطابق مصر نے سوڈانی فوج کے پائلٹوں کو تربیت دی اور ڈرون فراہم کیے، تاہم قاہرہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ مصر چاہتا ہے کہ جنگ سوڈان کی سرحدوں کے پار تک نہ پھیلے اور آخرکار سوڈانی پناہ گزینوں کی وطن واپسی بھی ممکن ہو۔
کہا جا رہا ہے کہ ایران اور ترکی بھی سوڈان میں اسلحے کی ترسیل میں شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی قرن افریقہ کے لیے ڈائریکٹر لاٹیسیا بیڈر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''الفاشر میں حالیہ مظالم کے بعد آر ایس ایف کی قیادت اور ان کے حامیوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے خلاف کارروائی ضروری ہے، جنہوں نے واضح شواہد کے باوجود اپنی حمایت جاری رکھی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فوری طور پر آر ایس ایف کی قیادت پر پابندیاں عائد کرے اور عالمی برادری اس کے احتساب کو یقینی بنائے۔‘‘
گزشتہ جمعے کے روز بین الاقوامی دباؤ کے بعد آر ایس ایف نے اپنے چند جنگجوؤں کو گرفتار تو کیا، تاہم مبصرین کے مطابق مظالم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔