1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان کے تاریخی انتخابات

12 اپریل 2010

بحران، شکوک وشبہات اور غیر یقینی کی صورتحال کے سائے میں سب سے بڑے افریقی ملک سوڈان میں 25 سال بعد پہلے کثیر جماعتی انتخابات ہورہے ہیں۔

تصویر: AP

یہ انتخابات رواں سال کے اُس عوامی ریفرنڈم کے تناظر میں بھی خاصے اہم تصور کئے جارہے ہیں، جس میں سوڈان کے جنوبی حصے کو خودمختاری دینے سے متعلق رائے لی جائے گی۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان انتخابات کے بعد بھی ملک کے دو با اثر ترین افراد یعنی صدر عمر حسن البشیر اور نیم خودمختار جنوبی خطے کے سربراہ سلوا کیر اقتدار ہی میں رہیں گے۔

ایک سوڈانی دارفور میں خون خرابے میں مارے جانے والوں کی باقیات دکھاتے ہوئےتصویر: AP

سوڈان کی عیسائی اکثریتی آبادی والا جنوبی علاقہ تیل کی پیداوار کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ تین روزہ انتخابی عمل کا آغاز ہفتے کے روز ہوا۔ پہلے روز کی طرح انتخابات کے دوسرے روز بھی کسی بہت بڑے ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ انتخابات کی ساکھ البتہ متاثر ضرور ہوئی ہے کیونکہ حکومت مخالف بہت سی جماعتوں نے ووٹنگ سے پہلے ہی صدر عمر البشیر کی نیشنل کانگریس پارٹی پردھاندلی کے الزامات عائد کرکے انتخابی عمل سے دستبرداری کا اعلان کیا۔

دو دہائیوں کے بعد انتخابات منعقد کرنے والے انتخابی عملے کی جانب سے بھی بہت سی انتظامی کوتاہیاں سرزد ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دوسری جانب سابق باغی سلوا کیر کی جماعت سوڈان پیپلز لبریشن مووٴمنٹ مطالبہ کررہی ہے کہ انتخابی عمل میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کی جائے۔ سلوا کیر کے حامیوں کے مطابق جنوبی سوڈان میں انتخابی عمل کے پہلے روز بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ بہت سے سوڈانی باشندوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ دیا۔

یاد رہے کہ صدر عمر البشیر خود ایک سابق فوجی ہیں اور انہوں نے اقتدار پر سن 1989ء میں قبضہ کیا تھا۔

سوڈانی صدر عمر حسن البشیرتصویر: DW/AP

حالیہ انتخابات اور مجوزہ ریفرنڈم صدر عمر البشیر اور جنوب کے علٰیحدگی پسندوں کے مابین 2005 ء میں طے پائے امن معاہدے کے تحت منعقد کئے جارہے ہیں۔ ادھر ملک کے مغربی شورش زدہ خطے دارفور میں ہفتہ کو امن و امان قائم رہنے کی اطلاعات ہیں۔ دارفور کے ایک با اثر باغی گروہ نے انتخابات کو مسترد کیا ہے۔

دریں اثناء یورپی انتخابی مبصرین دارفور میں سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کے پیش نظر پہلے ہی وہاں سے جاچکے ہیں جبکہ دارفور کی مقامی آبادی کے بھی تیس لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں