1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویلین افراد فوجی عدالتوں میں کیوں؟

عاطف توقیر
24 اکتوبر 2023

پاکستانی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو نو مئی کو فوجی عمارات اور املاک پر حملے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی کارکنان کے مقدمات سننے سے روک دیا ہے تاہم سوال یہ ہے عام شہریوں کے ملٹری کورٹس میں مقدمات کا پس منظر کیا ہے؟

Pakistan Islamabad Eingang Parlamentsgebäude
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستانی سیاسی رہنما عمران خان اور ان کی جماعت کے متعدد کارکن اور رہنما نو مئی کو فوجی عمارات اور املاک پر حملوں کے الزامات میں گرفتار ہیں۔ سابقہ حکومت کی طرح نگران حکومت بھی ان واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دلوانے کے اعلانات کر چکی ہے، تاہم سپریم کورٹ نے رواں ہفتے ملٹری کورٹس کو ان سیاسی کارکنوں کے مقدمات سننے سے روک دیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کو ملک میں جمہوریت کے لیے ایک بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے سویلین شہریوں کے ملٹری کورٹس میں مقدمات پیش کیے جانے کا راستہ بند تو ہوا ہے تاہم یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوا؟

پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس: ’اشارے سخت ہیں‘

ملزم پاکستانی سویلین مگر عدالتیں فوجی: اکثر سیاسی جماعتیں دانستہ چپ

ملٹری کورٹس میں سویلین شہریوں کے مقدمات

سابق رکن صوبائی اسمبلی سندھ رضا ہارون نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے اس سوال کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ ملٹری کورٹس یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، کیوں کہ اصولی طور پر عام عدالتوں ہی کو تمام طرح کے مقدمات نمٹانا چاہیئیں۔

انہوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے الزام میں گرفتار افراد تو عام شہری ہیں تاہم ماضی میں خطرناک دہشت گردوں اور طالبان عسکریت پسندوں کے مقدمات سننے سے متعلق ججوں میں پائے جانے والے خوف اور خدشات کے تناظر میں ان عدالتوں کو قائم کیا گیا تھا۔

عمران خان کی گرفتاری پر ان کے حامیوں نے پرتشدد احتجاج کیا تھاتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ملٹری عدالتیں کب سے؟

پاکستان میں ملٹری عدالتیں آرمی ایکٹ کے متنازعہ قانون کے تحت کام کرتی ہیں، جسے سن 1952 میں  پاکستانی قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا، تاہم بعد میں یہ قانون کئی طرح کی ترامیم سے گزرتا چلا گیا۔ اس قانون میں ایوب خان کے دور میں ترمیم کر کے اس کا دائرہ تب کی فوجی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں تک وسیع کیا گیا جب کہ بعد میں سویلین حکومتوں نے بھی بہ وجوہ اس میں دیگر طرز کی ترامیم کیں۔ 

پاکستانی سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کی جس شق کو گزشتہ روز خلاف دستور دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا، وہ سن 1976 میں بھٹو دور میں شامل کی گئی تھی۔ آرمی ایکٹ کی ٹو ڈی ڈی نامی اس شق کے تحت ریاستی یا حکومت املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے اور اس میں قریب ڈیڑھ سو طلبہ اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد سن 2015 میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، تو اس میں بھی دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں میں پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ تب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس مشترکہ قانون کی منظوری دی۔

اسی تناظر میں آئین میں اکیسویں ترمیم بھی کی گئی تھی۔ تب پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سینیٹ رضا ربانی نے اسمبلی کے فلور پر روتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے موقف کے تحت ووٹ دے رہے ہیں، تاہم یہ ان کے ضمیر کے خلاف ہے۔

رضا ہارون نے کہا کہ اصولاﹰ تو عام عدالتوں ہی کو تمام تر مقدمات سننا چاہیئیں، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عدالتیں بعض صورتوں میں یہ کام کر سکتی ہیں؟ ہارون کا مزید کہنا تھا کہ اب سویلین عدالتوں کے جج صاحبان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی اور آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو گا کہ حالات کس جانب جاتے ہیں۔

حکومت نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کر چکی ہےتصویر: Arif Ali/AFP

پی ٹی آئی کو ریلیف

نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا، تو ان کے حامیوں نے مختلف مقامات پر احتجاج  کیا اور اسی دوران پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر سمیت مختلف مقامات پر فوجی عمارات اور املاک پر حملے کیے گئے۔

اس کے بعد حکومت نے پی ٹی آئی کارکنان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں۔ تب وزیراعظم شبہاز شریف کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ان افراد کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا اور ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔ اسی حوالے سے نئی قانون سازی بھی کی گئی تھی۔ حکومت کے خاتمے کے بعد انوار الحق کاکڑ پاکستان کے نگران وزیراعظم مقرر ہوئے تو انہوں نے بھی اسی موقف کا اظہار کیا۔

تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے عام شہریوں کے مقدماتفوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے بنیادی دستوری  ضمانتوں اور شہری آزادی کی خلاف ورزی  قرار دیا جا رہا تھا۔

عدالتی فیصلے کا خیر مقدم

اس عدالتی فیصلے کو پاکستان کے زیادہ تر طبقات نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ایک بیان میں اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد نو مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث سو سے زائد افراد کو فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ ''فوجی عدالت شفاف مقدمے کے لوازمات پورے نہیں کرتی اور نہ ہی اس مقدمے کو غیرجانب دار یا آزاد قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

کمیشن نے اپنے بیان میں ادریس خٹک سمیت فوجی عدالتوں سے پہلے ہی سزا پانے والے افراد کو اس فیصلے سے فائدہ ملنے کی توقع بھی ظاہر کی۔

تحریک انصاف کی حکومت میں بھی فوجی عدالتیں

تحریک انصاف نے تازہ عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت اب نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کو فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ تاہم ماضی میں خود پی ٹی آئی بھی سویلین شہریوں کے فوجی عدالتوں میں پیش کرنے کے حق میں رہی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں یعنی اگست دو ہزار اٹھارہ سے اپریل دو ہزار بائیس تک متعدد عام شہریوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات سے گزارا گیا۔ سماجی کارکن ادریس خٹک کو سن 2019 میں حراست میں لیا گیا اور سن 2021 میں انہیں فوجی عدالت ہی نے طویل قید کی سزا سنائی۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں