سویڈش بادشاہ کارل گسٹاف اور ملکہ سلویا جرمنی کے دورے پر
6 اکتوبر 2016ان سب عوامل کے برعکس جن کے باعث دنیا جرمنی کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتی ہے، کرہ ارض کے چند ممالک ایسے بھی ہیں جنہیں خود جرمن عوام بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ وہ ممالک ہیں جہاں آئینی بادشاہتیں قائم ہیں، سربراہان مملکت کے عہدے ان ریاستوں کے بادشاہوں یا ملکاؤں کے پاس ہیں اور ایسے گھرانوں کے افراد اور ان کی زندگی کے بارے میں جرمن باشندے معمول سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور اقتصادی عالمگیریت کے موجودہ دور میں جرمن باشندوں کی مختلف ملکوں میں حکمران شاہی خاندانوں کے بارے میں دلچسپی نہ تو ختم ہوئی ہے اور نہ ہی کم۔ اس کی ایک معاشرتی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی کے برعکس وفاقی جمہوریہ جرمنی میں آج کوئی شاہی حکمران خاندان تو نہیں ہے تاہم جرمنوں کا شاہی خاندانوں سے مخلص رہنا ابھی تک نہیں بدلا۔
یہی وجہ ہے کہ سویڈن کی ملکہ سلویا اور بادشاہ کارل گسٹاف کا ان دنوں جرمنی کا جو چار روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں، وہ شان و شوکت کے دلدادہ بہت سے بادشاہت پسند جرمنوں کے لیے سال کا اہم ترین واقعہ ہے۔
ملکہ سلویا اور بادشاہ کارل گسٹاف اپنے اس دورے کے آغاز پر کل بدھ پانچ اکتوبر کے روز برلن پہنچے تھے، جہاں جرمن صدر یوآخم گاؤک نے ایک بہت پروقار تقریب کے ساتھ ذاتی طور پر ان کا استقبال کیا تھا۔
بہت سے جرمن شہریوں کو تو اس بارے میں بھی بڑی دلچسپی ہے کہ ملکہ سلویا کو کیا پسند آ رہا ہے اورکیا نہیں؟ وہ جرمنی میں کس طرح اور کس رنگ کا لباس زیب تن کر رہی ہیں اور انہوں نے کس طرح کے زیورات پہنے ہوتے ہیں؟
سلویا جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں
جرمنی میں سویڈش ملکہ سلویا کو اس لیے بھی زیادہ پسند کیا جاتا ہے کہ سلویا دراصل ایک جرمن ہیں، جو شہر ہائیڈل برگ میں پیدا ہوئی تھیں۔ اسی لیے اگر کوئی جرمن سویڈن کی ملکہ کے بارے میں ’ہماری سلویا‘ یا ’ہماری ملکہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے، تو ایسا کرنا غلط بھی نہیں ہے۔
جرمنی میں سویڈش ملکہ سلویا کی بہت زیادہ عوامی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی جرمن باشندے انہیں ’دلوں کی ملکہ‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ ملکہ سلویا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب وہ جرمنی یا جرمنوں کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ترجیحی طور پر جرمن زبان میں گفتگو کرنا پسند کرتی ہیں۔
ملکہ سلویا کا جرمن دارالحکومت برلن کے بارے میں کہنا ہے کہ برلن کے شہری ’جلد سوچنے والے اور متجسس‘ ہوتے ہیں۔ برلن شہر ہی وہ جگہ ہے، جہاں ’چائلڈ ہُڈ‘ نامی تنظیمی پلیٹ فارم سے ملکہ سلویا ابھی تک عدم توجہ کے شکار بچوں کی بہتر سماجی حالت کے لیے ابھی تک کوشاں ہیں۔
ایک 13 سالہ لڑکی کے طور پر سلویا کو ماضی کے منقسم جرمنی میں کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست کے حکام کے رویے کا تجربہ بھی ہوا تھا جب ایک بار برلن سے واپس ہائیڈل برگ جاتے ہوئے جی ڈی آر کے سرحدی محافظین نے انہیں ان کے پاسپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے روک لیا تھا۔
جہاں تک یورپ میں مہاجرین کے بحران کے سلسلے میں جرمنی اور سویڈن جیسے ملکوں کے رد عمل کا سوال ہے تو ملکہ سلویا کا کہنا ہے کہ برلن اور سٹاک ہولم نے جس طرح کھلے دل سے مہاجرین کو خوش آمدید کہا اور اپنے ہاں لاکھوں ضرورت مند تارکین وطن کو پناہ دی، وہ ’واقعی شاندار اقدام‘ ہے۔
ملکہ سلویا اور بادشاہ کارل گسٹاف کا موجودہ سرکاری دورہ جرمنی ویک اینڈ پر اپنے اختتام کو پہنچے گا۔