سویڈش ڈاکٹر کو ایران میں سزائے موت کیوں سنائی گئی؟
12 مئی 2022
ویدا کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر احمد رضا جلالی کی زندگی بچا لیں۔ ایرانی حکومت ویدا کے شوہر جلالی کی سزائے موت پر جلد ہی عمل درآمد کرنے والی ہے۔ عالمی دباؤ کے باوجود ایرانی مؤقف میں کوئی لچک دِکھائی نہیں دے رہی۔
اشتہار
پچاس سالہ احمد رضا جلالی گزشتہ چھ برسوں سے ایران کی ایک جیل میں قید ہیں۔ انہیں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی تھی، جس پر اکیس مئی کو عمل درآمد کیا جائے گا۔
احمد رضا اپنے کولیگز کے لیے ایک محترم فزیشیئن ہیں، جو آفات میں طبی امداد کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں ماہرین کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ عالمی سطح پر ایسے ماہرین کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔
ویدا مھراننیا کے لیے وہ ایک محبت کرنے والے شوہر ہیں۔ ویدا اپنے شریک حیات کی جدائی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا روگ قرار دیتی ہیں۔ وہ اپنے دس سالہ بیٹے اور انیس سالہ بیٹی کے ساتھ سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم میں سکونت پذیر ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں ویدا نے کہا کہ یہ خیال ہی ان کے لیے ڈراؤنا خواب ہے کہ ان کے شوہر کو پھانسی دی جا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایران دراصل ان کے شوہر کو قربان کرنا چاہ رہا ہے۔
یہ فیملی سویڈش شہریت کی حامل ہے لیکن سویڈن حکومت کی کوششوں کے باوجود احمد رضا جلالی کو سزا سنائی گئی اور اب اندیشہ ہے کہ انہیں پھانسی پر بھی لٹکا دیا جائے گا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جلالی کی ایران میں گرفتاری اور سزا کی وجہ یہی ہے کہ وہ سویڈش شہری بن چکے ہیں۔
آغاز کہاں سے ہوا؟
جلالی ایرانی شہر تبریز میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کی اور اٹلی اور سویڈن میں اپنا شاندار کیریئر بنایا۔ انہوں نے مختلف طبی جریدوں میں چالیس سے زائد تحقیقاتی مقالے تحریر کیے اور عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
اپریل سن 2016 میں جلالی کو ایران میں منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔ اپنی ایرانی شناخت کی وجہ سے انہوں نے فوری حامی بھر لی لیکن ایک مرتبہ وہ تہران پہنچے تو ان کے واپسی کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے۔
ایرانی سکیورٹی سروسز کا الزام تھا کہ جلالی نے ایرانی جوہری سائنسدانوں کے کوائف اسرائیلی خفیہ اداروں کو فراہم کیے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد سے بھی وابستہ تھے۔ یوں ایران کی ایک عدالت نے جلالی کو بغیر کسی منصفانہ مقدمے کے سزائے موت سنا دی گئی۔
اشتہار
ایران اور سویڈن کے مابین چپقلش کیا ہے؟
ایران اور عراق کی جنگ کے بعد کچھ ایرانی لوگ بچ کر سویڈن پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے سویڈن کی ایک عدالت میں تب ایران میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں پر گواہی دی تھی۔
تاہم ایران کا کہنا ہے کہ جلالی کو سنائی جانے والی سزا کا تعلق ماضی کے اس واقعے سے ہر گز نہیں ہے۔ تاہم ویدا کا اصرار ہے کہ ان دونوں واقعات کے مابین گہرا تعلق ہے۔
سزائے موت دیے جانے کے حوالے سے ایران عالمی سطح پر سرفہرست ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس ایران میں مجموعی طور پر 280 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جن میں دو نابالغ بھی تھے۔
تاہم ایران میں غیر ملکیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کی شرح انتہائی کم ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایران میں کسی غیر ملکی کی سزائے موت پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم ایرانی نژاد ایسے شہری جو کسی دوسرے ملک کی شہریت کے بھی حامل ہیں، ان کی سزائے موت پر عمل کیا جاتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایرانی نژاد کینیڈین شہری حامد قاسمی اور ایرانی نژاد امریکی شہری امیر حکمتی کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے۔
جلالی کی اہلیہ ویدا کے بقول ان کے شوہر پر تشدد کیا جا رہا ہے اور اب تو جلالی تکلیف سے بچنے کی خاطر مر جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''دو ممالک کے مابین سیاسی مسائل کی وجہ سے ہم تکلیف میں مبتلا ہیں۔‘‘
ع ب، ع س (اے پی)
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔