سویڈن: الیگزینڈرا مظہر کے قاتل نوجوان مہاجر کو سزا
شمشیر حیدر8 اگست 2016
سویڈن کی ایک عدالت نے پناہ گزینوں کے مرکز میں کام کرنے والی بائیس سالہ خاتون کو قتل کرنے کے جرم میں ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان پناہ گزین کو نفسیاتی علاج مہیا کرنے کے بعد ملک بدر کر دینے کی سزا سنائی ہے۔
اشتہار
رواں برس جنوری کے مہینے میں سویڈن میں نوجوان پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں کام کرنے والی لبنانی نژاد بائیس سالہ الیگزینڈرا مظہر کو چاقو سے حملہ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ تارک وطن یوسف خلیف نور کو گرفتار کر کے اس پر اس قتل سے متعلق فرد جرم عائد کی تھی۔
سویڈن کی ایک ضلعی عدالت نے آج اس مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے لکھا، ’’یوسف نور اپنے لاپرواہ رویے کے سبب الیگزینڈرا مظہر کے قتل کا باعث بنا۔ اسے قتل عمد کا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔‘‘
عدالت نے یوسف نور کی ذہنی حالت کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا تھا جس دوران پتہ چلا تھا کہ اس کی ذہنی حالت غیر مستحکم ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا امکان بھی ہے کہ یوسف اس بات سے بے خبر ہو کہ الیگزینڈرا مظہر کی ٹانگ پر آنے والا زخم اس کی موت کا سبب بن جائے گا۔
یوسف کی حتمی عمر تو معلوم نہیں ہے لیکن اس نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس کی عمر پندرہ برس ہے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ نور کی عمر کم از کم بھی اٹھارہ برس ہے۔ عدالت نے یوسف نور کا جسمانی معائنہ کر کے اس کی عمر کے تعین کا حکم بھی دیا تھا، جس کے نتائج کے مطابق اس کی عمر اٹھارہ برس قرار دی گئی تھی۔
یوسف نور نے اس وقت لبنانی نژاد سویڈش شہری الیگزینڈرا مظہر کو چاقو کے وار سے ہلاک کر دیا تھا جب وہ نابالغ تارکین وطن کے ایک مرکز میں ہونے والی لڑائی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یوسف نے الیگزینڈرا کی مدد کی کوشش کرنے والے ایک اور شخص کو بھی چاقو سے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق یوسف نور کو نفسیاتی علاج مہیا کیے جانے کے بعد سویڈن سے ملک بدر کر دیا جائے گا اور وہ 2026ء سے پہلے دوبارہ سویڈن نہیں آ سکے گا۔
الیگزینڈرا مظہر کے خاندان کے وکیل نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کریں گے۔ الیگزینڈرا مظہر کے قتل کے بعد سویڈن میں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔
سویڈن کی مجموعی آبادی 9.8 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ گزشتہ برس کے دوران ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد مہاجرین نے سویڈن میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ مجموعی آبادی کے تناسب سے یورپی یونین کی کسی رکن ریاست میں پناہ کی درخواستیں دینے والے مہاجرین کی یہ سب سے بڑی شرح بنتی ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔