سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم سے تقریبا 60 کلومیٹر شمال میں واقع شہر اپسالا میں موسم بہار کے تہوار سے ایک دن قبل فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔
سویڈن کے شہر اپسالا میں منگل کے روز ایک ہیئر سیلون میں فائرنگ کے نتیجے میں تبادلے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔تصویر: Fredrik Sandberg/TT News Agency via AP/picture alliance
اشتہار
سویڈن کی پراسیکیوشن اتھارٹی نے آج بدھ 30 اپریل کو کہا ہے کہ اس نے اُپسالا شہر میں فائرنگ کے واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 16 سالہ نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔
اس سے قبل پولیس نے تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ ایک نقاب پوش مسلح شخص نے کیا۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ منگل کی شام پیش آنے والے فائرنگ کے اس واقعے کے بعد کم از کم ایک مشتبہ شخص ایک الیکٹرک اسکوٹر پر فرار ہوگیا۔
سویڈش وزیر انصاف گُنار اسٹرؤمر نے ہلاکتوں کو 'انتہائی سنگین‘ معاملہ قرار دیا ہے۔ پولیس نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا ہلاکتوں کا یہ معاملہ گینگ وار کا تازہ ترین واقعہ ہے یا نہیں۔ سویڈن میں رواں برس فروری میں ایک اسکول پر فائرنگ کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس کے ترجمان میگنس جانسن کلارین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے، تاہم ہم نے ان کی شناخت کی تصدیق نہیں کی ہے۔‘‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں ایک الیکٹرک اسکوٹر پر ایک نقاب پوش شخص کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ہم ان رپورٹس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘‘
سویڈش میڈیا کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین نے شہر کے وسط میں واقع ایک ہیئر سیلون میں کئی گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔تصویر: Fredrik Sandberg/TT News Agency/REUTERS
سویڈش میڈیا کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین نے شہر کے وسط میں واقع ایک ہیئر سیلون میں کئی گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔
سویڈن کے سرکاری نشریاتی ادارے ایس وی ٹی کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک شخص، ایک گینگ کے سرغنہ اسماعیل عبدو کے ایک رشتہ دار پر حملے کی منصوبہ بندی کے معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں مشتبہ تھا۔
فائرنگ اور ہلاکتوں پر عوام حیران
ایک مقامی یونیورسٹی کے ایک طالب علم الیاس سنڈگرین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ عام طور پر ایک پرسکون علاقہ ہے، میں یہاں روزانہ خریداری کرتا ہوں۔‘‘
اپسالا کے میئر ایرک پیلنگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس واقعے سے حیران اور مایوس ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اس بات پر بھی غصہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے: ''ہم ان جرائم کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں۔ میں مایوس ہوں کہ ہم اس مسئلے سے زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘
فائرنگ کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب آج 30 اپریل کو اپسالا میں موسم بہار کے آغاز کے موقع پر ویلبورگ فیسٹیول کا انعقاد ہو رہا ہے۔
پولیس ترجمان میگنس جانسن کلارین نے گزشتہ روز کہا کہ بقول لوگوں کو اس فیسٹیول میں شرکت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس فیسٹیول میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک لوگ شریک ہوں گے۔
اشتہار
سویڈن میں 'گینگ وار‘ سے جڑے واقعات
سویڈن گزشتہ کئی سالوں سے متحارب گروہوں کے درمیان فائرنگ اور بم دھماکوں پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں گوتھن برگ میں مشتبہ طور پر گینگز کے درمیان لڑائی میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ گزشتہ سال گوتھن برگ میں گینگ وار ہی کے سلسلے میں ایک مشہور ریپر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
سویڈن میں رواں برس فروری میں ایک اسکول پر فائرنگ کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔تصویر: Kicki Nilsson/TT/IMAGO
اس طرح کے واقعات میں مجرم اکثر 15 برس سے کم عمر کے نوجوان ہوتے ہیں جنہیں کنٹریکٹ قاتلوں کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ سویڈن میں مجرمانہ ذمہ داری کی عمر 15 سال ہے۔ تاہم 2024ء میں گینگ وار سے جڑی اس طرح کی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10.6 ملین آبادی والے ملک میں سال 2024ء کے دوران مہلک تشدد کے 92 واقعات ریکارڈ کیے گئے جو 2023 کے مقابلے میں 29 کم تھے۔ 2014ء کے بعد سے یہ سب سے کم تعداد تھی۔
سویڈش نیشنل کونسل فار کرائم پریونشن (بی آر اے) کے مطابق 2024ء میں فائرنگ کے 296 واقعات رپورٹ ہوئے جو اس سے ایک سال قبل کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہیں۔
گینگ وار کا مقابلہ کھیلوں سے
کراچی کا علاقہ لیاری فٹبال کے حوالے سے ’پاکستان کا برازیل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مگر آج اس علاقے کی وجہ شہرت مسلح گروپوں کے درمیان جاری مسلسل جنگ یا گینگ وار ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
گینگ وار کا شکار ’پاکستانی برازیل‘
کراچی کا علاقہ لیاری فٹبال کے حوالے سے ’پاکستان کا برازیل‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مگر آج اس علاقے کی وجہ شہرت مسلح گروپوں کے درمیان جاری مسلسل جنگ یا گینگ وار ہے۔ تاہم لیاری کے یہ معصوم بچے کراچی کی سڑکوں پر نظر آنے والے دیگر بچوں سے بہت مختلف ہیں اور یہاں کے روایتی کھیلوں میں مستقبل کے لیے امید کی کرن ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
قدیم لیاری کی پہچان
کراچی کے قدیم علاقے لیاری نے محض اچھے فٹبالر ہی نہیں پیدا کیے بلکہ اس کی ایک پہچان باکسنگ بھی رہی ہے لیکن اب غربت، منشیات اور یہاں کے مخدوش حالات، شہرت کی ان وجوہات پر غالب آتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
150 کے قریب فٹبال کلبس
چھ لاکھ سے زائد آبادی والے کراچی کے علاقے لیاری میں 150 کے قریب رجسٹرڈ فٹبال کلبس موجود ہیں جبکہ یہاں 11 فٹبال گراؤنڈ اور دو اسٹیڈیم بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کے رہائشیوں، نوجوانوں اور بچوں میں اس کھیل کا جنون ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ننھے میسی اور رونالڈو
فٹبال کے شوقین ان بچوں کا کھیل کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک برازیل ہے۔ یہ میسی اور رونالڈو کو اپنا آئڈیل مانتے ہیں اور ان ہی جیسا بننے کی لگن میں ناکافی سہولیات رکھنے والے ان فٹ بال کلب کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
باکسنگ
فٹ بال کے بعد باکسنگ لیاری کا دوسرا پسندیدہ ترین کھیل ہے۔ یہ بچے بھی اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیے گئے باکسنگ کلبز میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اگر انہیں مناسب سہولیات فراہم کی جائیں یا بیرون ملک جا کر اپنی صلاحتیں منوانے کا موقع ملے تو وہ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
پاکستان کے سب سے زیادہ باکسنگ کلبس
علاقہ مکینوں کا دعویٰ ہے کہ لیاری میں جتنے باکسنگ کلب موجود ہیں، شاید ہی پاکستان کے کسی اور علاقے میں ہوں۔ یہاں آنے والے بچوں کو عالمی معیار کی سہولیات تو دستیاب نہیں لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تربیت حاصل کرنے والے بچے کسی بھی عالمی مقابلے میں شرکت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
عدم تعلیم اور بے روزگاری
لیاری میں بے روزگاری اور حالات کے باعث یہاں بسنے والے بچے تعلیم پر کم توجہ دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اسکول کے بجائے صرف فٹ بال اور باکسنگ کے میدان میں کامیابی ہی ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
بچوں پر گینگ وار کے اثرات
اس علاقے میں جرائم پیشہ افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان اکثر ہونے والی جھڑپوں کے اثرات سے یہ بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فٹ بال اور باکسنگ کے علاوہ یہاں کے بچوں کا پسندیدہ ترین کھیل چور سپاہی ہے جس میں بچے سپاہی کی بجانے چور بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تصویر: DW/U. Fatima
کھیل جرائم اور منشیات سے بچانے کا ذریعہ
لیاری میں فٹبال، باکسنگ اور جمناسٹک سکھانے کے درجنوں کلبس دراصل ایک خاموش خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ یہ بچوں اور نوجوانوں کو جرائم پیشہ گروہوں اور منشیات کی طرف راغب ہونے سے بچانے کا مؤثر ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Unbreen
حکومتی سرپرستی کے متلاشی
بچوں کو تربیت دینے والے ایک کوچ یعقوب بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سرپرستی کرے تو لیاری اب بھی بین الاقوامی پائے کے کھلاڑی پیدا کر سکتا ہے اور چہار عالم پاکستان کا نام روشن کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Unbreen
یگانگت اور بھائی چارہ
ان میدانوں میں کھیلتے ان بچوں کو اس بات سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ وہ ساتھ کھیلنے والے دیگر بچوں کا تعلق کس فرقے یا مذہب سے ہے۔ ان پر تو صرف اس کھیل میں محنت کرکے نام پیدا کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔
تصویر: DW/F. Unbreen
بچوں کے مستقبل کے حوالے سے تحفظات
بے روزگاری کے باعث لیاری کے علاقے میں غربت عام ہے۔ تعلیم سے دوری ان بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کی جانب زیادہ مائل کر رہی ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ کھیل ہی وہ واحد راستہ ہے جو انہیں جرائم اور نشے جیسی بری عالتوں سے دور رکھنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ مصنف و تصاویر:عنبرین فاطمہ