سویڈن میں مجوزہ مذاکرات جنگ سے متاثرہ ملک یمن میں قیام امن کے لیے ’اہم موقع‘ ہیں۔ یہ بات متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے کہی ہے۔ متحدہ عرب امارات حوثی باغیوں کے خلاف سعودی سربراہی میں قائم اتحاد کا حصہ ہے۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گرفتھس حوثی باغیوں کے قبضے میں موجود یمنی دارالحکومت صنعاء میں موجود ہیں تاکہ سویڈن میں مجوزہ مذاکرات کو با معنی بنایا جا سکے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے، ’’صنعاء سے زخمی حوثی باغیوں کا انخلاء اس بات کی دلیل ہے کہ یمنی حکومت اور عرب اتحاد امن کا حامی ہے۔‘‘
پیر تین دسمبر کو اقوام متحدہ کے ایک چارٹرڈ ہوائی جہاز کے ذریعے 50 حوثی باغیوں کو صنعاء سے عمان بھیجا گیا تھا۔ اس پیشرفت کو مذاکرات سے قبل ’’اعتماد سازی‘‘ کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
غریب ترین عرب ریاست یمن میں سال 2014ء کے اواخر میں شروع ہونے والے تنازعے کے سبب وہاں قحط کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور ہزاروں بچے اس سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یمن کو دنیا کا بد ترین انسانی المیہ قرار دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سعودی سربراہی میں بننے والے عرب اتحاد کی طرف سے یمن میں 2015ء میں فضائی حملے شروع کرنے سے اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کے گروپوں کا ماننا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
سویڈن میں مجوزہ مذاکرات کے لیے ابھی تک کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم امید یہی ہے کہ یہ رواں ہفتے میں شروع ہو سکتے ہیں۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں مزید لکھا ہے، ’’ہمارا یقین ہے کہ سویڈن نے یمنی صورتحال کے سیاسی حل کے لیے ایک انتہائی اہم موقع فراہم کیا ہے۔‘‘ اس پیغام میں وہ مزید لکھتے ہیں، ’’یمنی سربراہی میں ایک پائیدار حل موجودہ بحران کے خاتمے کے لیے بہترین موقع ہو گا۔‘‘