سویڈن میں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ سویڈن کے عوام میں مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ ہے۔
اشتہار
سویڈن میں نو ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف جماعت سویڈن ڈیموکریٹس (SD) بڑا اپ سیٹ کر سکتی ہے۔ سویڈن میں حالیہ کچھ عرصے میں آنے والے سیاسی پناہ کے لاکھوں متلاشی افراد کے تناظر میں عوامی سطح پر مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا فائدہ اس جماعت کو ہو سکتا ہے۔
انتخابات سے فقط دو ہفتے قبل کرایے جانے والے عوامی سروے بتاتے ہیں کہ یہ جماعت بیس فیصد تک ووٹ حاصل کر سکتی ہے اور ایسی صورت میں یہ سویڈن کی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔
ماضی کی نیونازی تحریک سے پھوٹنے والی ایس ڈی نامی جماعت طویل عرصے سے سیاسی آشیرباد حاصل کرنا چاہتی تھی اور حالیہ کچھ عرصے میں سویڈش سیاست میں اس کے قدم نہایت مضبوط ہوئے ہیں۔
اس جماعت کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کی حکومت میں دائیں یا بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہے، تاہم اس کی توجہ ملکی امیگریشن پالیسی میں تبدیلی پر مرکوز ہے۔
گو کے حالیہ کچھ عرصے میں دائیں بازو کی کچھ جماعتیں ایس ڈی سے غیر رسمی طور پر مدد طلب کرتی رہی ہیں، تاکہ پارلیمان میں قانون سازی کا عمل آسانی سے تکمیل پایا جائے، تاہم کسی بھی جماعت کی جانب سے ایس ڈی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت سن 2010 کے انتخابات میں پہلی بار پارلیمان میں داخل ہوئی تھی اور تب اس نے پانچ اعشاریہ سات فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ سن 2014ء کے انتخابات میں اس جماعت نے اپنی عوامی مقبولیت میں قریب دوگنا اضافہ کرتے ہوئے قریب تیرہ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ سن 2014 میں بننے والی تین سو انچاس رکنی پارلیمان میں اس جماعت نے 42 نشستیں حاصل کی تھیں۔
ع ت، الف الف (روئٹرز، اے ایف پی)
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔