سویڈن میں بھورے ریچھ کے شکار پر تحفظ پسندوں کو گہری تشویش
1 ستمبر 2024
سویڈن میں بھورے ریچھ کے شکار کا سالانہ سیزن شروع ہوچکا ہے اور موجودہ گرمیوں میں کُل 486 ریچھوں کو مارنے کی اجازت ہے۔ تاہم جانوروں کی بہبود کے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ ان ریچھوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
اشتہار
ریچھوں کی آبادی کے تحفظ کے لیے سویڈن اور ناروے کے مشترکہ منصوبے سے منسلک ماہر ماحولیات جوناس کنڈبرگ کے مطابق اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان ریچھوں کی موجودہ آبادی، جو تقریباً 2,400 ہے، آئندہ بھی برقرار رہے، تو آپ سالانہ صرف 250 ریچھوں کا ہی شکار کر سکتے ہیں۔
حکومت کا مختص کردہ شکار کا کوٹہ
بھیڑیوں اور ریچھوں کے شکار پر سویڈن میں سخت علاقائی کنٹرول ہے۔ مقامی علاقوں میں ہر موسم میں جانوروں کے شکار کے لیے کوٹے مقرر ہیں، جن کا مقصد ان کی تعداد کو مستحکم رکھنا اور پالتو جانوروں اور قطبی ہرنوں کو ایسے جانوروں کے باعث لاحق خطرات اور نقصانات سے بچانا ہے۔
حکومت کا مقرر کردہ کوٹہ اس لیے بہت جلد پورا ہو جاتا ہے کہ شکار کے شوقین افراد اس کی اجازت ملتے ہی فوراﹰ شکار کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
سویڈن میں بھورے ریچھوں کے شکار کا سیزن یا تو 15 اکتوبر تک جاری رہتا ہے، یا پھر جب تک 486 ریچھوں کے شکار کا طے شدہ کوٹہ پورا نہ ہو جائے۔
گزشتہ سال بھورے ریچھوں کے شکار کے لیے سب سے بڑا کوٹہ مقرر کیا گیا تھا جو 649 تھا۔ اس سے قبل سن 2022 میں یہ تعداد 622 جبکہ 2021 میں 501 مقرر کی گئی تھی۔
سویڈن میں بھورے ریچھوں کے شکار کے کوٹے کا تعین ملک میں ان ریچھوں کی مجموعی آبادی کے تخمینے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
سویڈن کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق ملک میں 2022 کے لیے شکار کے سیزن کے اختتام پر ریچھوں کی مجموعی آبادی تقریباﹰ 2800 تھی۔
اسی تنظیم کے ایک رکن ماگنوس اورے بانٹ نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ سویڈن میں ریچھوں کا شکار زیادہ تر ان کے جسموں کے مختلف حصوں کو شکاری کی ذاتی کامیابی کی علامت کے طور پر محفوظ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد انہیں مارنا ہوتا ہے نہ کہ ان کی حفاظت کرنا یا ان کی تعداد کو کنٹرول کرنا۔
اس تنظیم کی رائے میں سویڈن میں بھورے ریچھوں کی مجموعی آبادی کافی کم ہے جو کہ دوسری صورت میں زیادہ ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ان ریچھوں کے محدود شکار کی اجازت دینا یورپی یونین کی پالیسی کے خلاف بھی ہے، جس نے ان بھورے ریچھوں کو جانوروں کی ’’سختی سے محفوظ رکھی گئی نوع‘‘ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
اشتہار
ناروے اور فن لینڈ میں ریچھ کے شکار پر پابندی
سویڈن کے ہمسایہ ملک ناروے نے اپنے ہاں بھورے ریچھوں کے شکار پر پابندی لگا رکھی ہے جبکہ فن لینڈ میں صرف خصوصی لائسنس کے حامل شکاریوں کو ہی ان کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔
فن لینڈ اور سویڈن دونوں میں ریچھ کے ایک سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے اور مادہ ریچھ دونوں کا شکار ممنوع ہے۔ تاہم جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ اس پابندی کو عملاﹰ نافذ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
جوناس کنڈبرگ کہتے ہیں کہ ریچھ عموماﹰ تین سے چار سال میں بالغ ہو جاتے ہیں اور ہر دو سے تین سال میں صرف چند بچے ہی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن شکار کے دوران مادہ اور نر ریچھ میں تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ کہ اگر کسی مادہ ریچھ کو شکار کیا جائے، تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی ممکنہ طور پر آئندہ نسل کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
ح ف / ص ز (اے پی، ڈی پی اے)
غیر قانونی شکار، جنگلی حیات کے لیے خطرہ
ہاتھی دانت، جانوروں کی کھال اور دیگر حیوانی اجزاء سے تیار کردہ اشیاء کے کاروبار پر قانونی پابندی کے باجود یہ کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ خاص طور پر افریقہ اور ایشیا میں اس کاروبار سے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP
کوئی امکان نہیں
غیر قانونی شکار کرنے والوں کے ہاتھوں کوئی جانور محفوظ نہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے عالمی ادارے WWF کے مطابق افریقی ہاتھیوں کی نسل خاص طور پر خطرے میں ہے۔ صرف گزشتہ دو برس کے دوران کم از کم 60 ہزار افریقی ہاتھی ہلاک کر دیے گئے۔ 100 برس قبل براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 50 لاکھ کے قریب تھی جو کم ہو کر اب چار لاکھ 70 ہزار سے چھ لاکھ 90 ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
امارت کی نشانی
ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کے دانت ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہاتھی دانت سے بنی اشیاء کی برآمد پر پابندی ہے۔ تاہم گزشتہ برس یعنی 2013ء کے دوران حکام نے 42 ٹن ہاتھی دانت ضبط کیے۔ چین جہاں ہاتھ دانت کی بنی اشیاء کی بہت زیادہ مانگ ہے، وہاں ہاتھی دانت کے بدلے سونا تک دیا جاتا ہے۔ کھدائی کے ذریعے نقش ونگار والی ہاتھی دانت سے بنی اشیاء چین میں امارت کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
گینڈے کا سینگ
ہاتھیوں کی طرح گینڈے بھی غیر قانونی شکار کے سبب شدید خطرات کا شکار ہیں۔ گینڈے کے تجارتی مقاصد کے لیے شکار اور اس کے جسمانی اجزاء سے بنی اشیاء پر پہلے ہی ایشیا اور افریقہ میں پابندی عائد ہے۔ اس جانور کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ شمالی سفید گینڈے کی نسل تو اب تقریباﹰ ختم ہی ہو چکی ہے۔
تصویر: STRINGER/AFP/Getty Images
گینڈے کا سینگ علاج کے لیے
گینڈے کے جسمانی اعضاء سے بنی اشیاء کے سب سے زیادہ گاہک بھی چین اور دیگر ایشیائی ممالک ہی میں موجود ہیں۔ گینڈے کے سینگ کو روایتی ایشیائی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے، جو بخار حتیٰ کہ کینسر تک کے علاج کا ذریعہ بھی سمجھی جاتی ہیں۔ گینڈے کے سینگ کی قیمت بھی ہاتھی دانت کی طرح کافی زیادہ ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
انتہائی پسند کی جانے والی کھال
جن جانوروں کی کھال بہت بیش قیمت سمجھی جاتی ہے ان میں شیر کی کھال بھی شامل ہے۔ جنگلی شیروں کی تعداد اب محض 3200 کے قریب رہ گئی ہے۔ 100 برس قبل ان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ شیروں کے شکار کے بعد تیار کردہ مصنوعات کی فروخت پر پابندی 1975ء میں عائد کی گئی تھی۔ غیر قانونی شکار کے علاوہ جنگلات کا کم ہوتا ہوا رقبہ بھی ان شیروں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
تصویر: Getty Images
ریچھ بھی خطرے میں
ریچھ بھی غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے جسمانی اعضاء کو نہ صرف بطور ٹرافی استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان کے بعض اعضاء ایشیائی ادویات میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر ریچھ کے شکار پر پابندی عائد نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قطبی ریچھ
قطبی ریچھ کی نسل کو سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ قطب شمالی پر پگھلتی ہوئی برف کے باعث ان کا رہائشی علاقہ سکڑتا جا رہا ہے۔ اس وقت ان کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے قریب ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال قریب 700 قطبی ریچھوں کا شکار کیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/st__iv
خطرناک اعتقاد
پہاڑی گوریلا جانوروں کی ان اقسام میں شامل ہے جو ناپید ہو جانے کے شدید خطرات سے دو چار ہیں۔ ان کی نسل اگلے 15 برسوں کے دوران بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ بندروں اور گوریلوں کا شکار عام طور پر ان کے گوشت کے لیے کیا جاتا ہے۔ بعض مقامی لوگوں کا اعتقاد ہے کہ گوریلے کا گوشت کھانے سے ان میں گوریلوں جیسی طاقت پیدا ہو سکتی ہے۔
تصویر: CC/by-sa-sentouno
بچاؤ کا ایک طریقہ فارمنگ
مگر مچھ شکار کیے جانے کے باعث لمبے عرصے سے معدومیت کے خطرے دو چار ہیں۔ مگر مچھ کی کھال کافی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اب اس جانور کو خطرے سے بچا لیا گیا ہے۔ مگر مچھوں کی فارمنگ کے ذریعے پیداوار بڑھا کر اس کی کھال کی صنعت کی ضرورت پوری کی جا رہی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ہجرت کے دوران ہلاکت
یورپ میں ہجرت کرنے والے پرندوں کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی شکاریوں سے لاحق ہوتا ہے۔ افریقہ سے واپس آنے والے پرندوں کو یا تو شکار کر لیا جاتا ہے یا پھر بڑے بڑے جالوں کے ذریعے پکڑ لیا جاتا ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کی جرمن تنظیم NABU کے مطابق افزائش نسل کے لیے ہجرت کرنے والے پرندوں کی بہت سے اقسام خطرات کا شکار ہیں۔
تصویر: AP Photo/David Guttenfelder on assignment for National Geographic Magazine