سویڈش پولیس نے جمعے کے دن اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اسے لاپتہ پاکستانی صحافی ساجد حسین بلوچ کی لاش ملی ہے۔ پولیس ترجمان یوناس ایرونن کے مطابق ساجد کی لاش 23 اپریل کو اُپسلا شہر سے باہر دریائے فیریسون سے ملی تھی۔
ایرونن کے بقول پوسٹ مارٹم سے کسی حد تک شبہ ہوا ہے کہ ساجد بلوچ شاید کسی جرم کا شکار بنا ہو، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ موت کسی حادثے یا خودکشی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔
تاہم آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ساجد حسین بلوچ کو شاید پاکستانی انٹیلیجس ایجنسی کی ایما پر 'اغوا‘ کیا گیا ہو۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ نے ساجد بلوچ کی موت پر کوئی رد عمل دینے سے انکار کیا ہے۔
پاکستان سے فرار
ساجد حسین بلوچ نے 2012ء میں پاکستان چھوڑ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور 2017ء میں وہ سویڈن میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ پاکستان چھوڑنے کی وجہ صوبہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک سے متعلق ان کی رپورٹنگ کے سبب انہیں ملنے والی دھمکیاں تھیں۔
وہ پاکستان میں معروف انگریزی اخبارات کے ساتھ کام کر چکے تھے جن میں دی نیوز اور دی ڈیلی ٹائمز بھی شامل ہیں۔ وہ نیوز ویب سائٹ بلوچستان ٹائمز کے بھی ایڈیٹر اِن چیف تھے۔ یہ ویب سائٹ بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزیوں اور صوبے میں منشیات کی اسمگلنگ جیسے موضوعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتی ہے۔ یہ نیوز پلیٹ فارم پاکستان میں قابل رسائی نہیں ہے۔
ساجد حسین اپنے خاندان کو سویڈن لانے کی کوشش میں تھے اور انہوں نے اُپسلا کی یونیورسٹی میں ایرانی زبانوں میں ماسٹرز ڈگری کے حصول کے لیے داخلہ بھی لے رکھا تھا۔ انہیں آخری مرتبہ دو مارچ کو دیکھا گیا تھا جب وہ سویڈش دارالحکومت اسٹاک ہوم سے اُپسلا جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے تھے۔ اُس وقت ساجد کے رشتہ داروں نے دعویٰ کیا تھا کہ سویڈش حکومت نے ان کی گمشدگی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جبکہ انہوں نے ساجد کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا۔
#اسپیک اپ بیرو میٹر ٹیم نے چند پاکستانی ڈیجٹل ماہرین کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیجیٹل حقوق، ذرائع ابلاغ و صحافت، معاشرے اور اختراعات کے شعبوں سے ہے۔
تصویر: DW/Q. Zamanنگہت داد ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی ایگزیکيٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی کی مہم کے اولین کارکنوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کی آزادی، خواتین اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل سکیورٹی کے علاوہ خواتین کی معاشی خود مختاری جیسے معاملات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
تصویر: DW/U. Wagnerسعد حمید گوگل کے کمیونٹی مینیجر ہیں اور ایک کمپنی ڈیجیٹل ایکوسسٹم کے کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ ایک کمپنی ڈیمو اینٹرپرائز کے چیف ایگزیکيٹر افسر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ نوجوان پاکستانیوں کی ڈیجیٹل مہارت کو بہتر بنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: privatفریحہ عزیر ڈیجیٹل حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیم ’بولو بھی‘ کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے وہ سینسر شپ فری ایکسپریشن ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ یہ ایوارڈ انہيں پاکستان میں سائبر کرائم بل متعارف کرانے کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔
تصویر: Privatمیڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی کمپنی کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ترقی کے امور کے ماہر خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ میڈیا کی قوت پر یقین رکھتے ہیں اور اس باعث وہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے لیے ایک فعال کردار ادا کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanپاکستان کے معتبر انگریزی اخبار روزنامہ دی نیوز کے ادارتی مواد اور رائے عامہ کے شعبے کی ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک تربیت یافتہ وکیل بھی ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے کمیونیکیشن اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ ایشیا جرنل کی سات برس تک ایگزیکيٹو ایڈیٹر رہنے کے علاوہ میڈیا کے شعبے میں جنوبی ایشیا اورجنوبی ایشیائی خواتین(SAWM) کے نیٹ ورک کی شریک بانی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman’بائٹس فار آل‘ نامی ادارے کے پاکستانی دفتر کے سربراہ شہزاد احمد ہیں۔ ’بائٹس فار آل‘ انسانی حقوق کا ادارہ ہے اور یہ اطلاعات اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی برائے ترقیاتی امور، جمہوریت اور سماجی انصاف پر فوکس کرتا ہے۔ شہزاد احمد ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور کئی مختلف گروپوں کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zamanصباحت ذکریا انگریزی اخبار دی نیوز کی نائب مدیر ہیں۔ وہ نیو یارک یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ انہیں فلک صوفی اسکالر شپ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان کے ایم اے میں تھیسس کا عنوان تھا ’ پاکستان میں انفرادی عورت کو حاصل ہونے والا عروج‘۔ یہ تھیسس بلوم برگ بھارت نے شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zamanماروی سرمد پاکستان میں گزشتہ پچیس برسوں سے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کے علاوہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ حقوقِ انسانی، اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور آزادئ اظہار کے لیے بھی متحرک ہیں۔ وہ پاکستانی ہیومن رائٹس کمیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی رکن ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
تصویر: Qurratulain Zamanمیڈیا انڈسٹری میں شہریار پوپلزئی بطور ڈیجیٹل اسٹریٹیجسٹ کے ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس نائٹ کے سابق فیلو ہونے کے علاوہ انگریزی اخبار دی ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanصدف خان ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ نامی ادارے کی شریک بانی ہونے کے علاوہ اِس کی پروگرام ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وہ سن 2002 سے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی ترقی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ شیوننگ اسکالر شپ حاصل کرنے کے بعد لندن اسکول آف اکنامکس میں زیر تعلیم رہ چکی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanپاکستان میں ڈان میڈیا گروپ کے چیف اسٹریٹیجسٹ جہاں زیب حق ہیں۔ اُن کی توجہ کا مرکز موجودہ ڈیجیٹل عہد میں ادارے کی ادارتی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ڈان ڈاٹ کام اور ڈان نیوز ٹیلی وژن میں ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اُن کے تحقیقی مضامین کے موضوعات سائبر اسپیس کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا، انٹرنیٹ اور انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال سے متعلق ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanمعتبر پاکستانی تعلیمی ادارے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے مشتاق احمد گورمانی اسکول برائے ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ندا کرمانی ’سیدہ وحید جینڈر انیشی ایٹیو‘ کی فیکلٹی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کے کئی مضامین کا موضوع جینڈر، اسلام، نسوانی تحریکیں اور مطالعہٴ برائے پاک بھارت کی شہری ترقیاتی ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanرضا احمد رومی مختلف ملکی پالیسیوں کے تجزیہ کار ہونے کے علاوہ ایک صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ وہ کورنل انسٹیوٹ برائے عوامی امور کے جزوقتی استاد بھی ہیں۔ وہ سن 2015 سے لے کر 2017 تک ایتھیکا کالج، گیلیٹن اسکول اور نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے بعض کورسز پڑھا چکے ہیں۔
تصویر: Qurratulain Zamanلنکڈ تھنگز نامی کمپنی کی بانی اور چیف ایگزیکٹو افیسر صوفیہ حسنین ہیں۔ ان کا ادارہ ڈیجیٹل مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔ صوفیہ حسنین نے امریکا سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ بعض یورپی ممالک میں بھی ملازمت کرتی رہی ہیں۔
تصویر: DW/Q. Zaman ا ب ا / ع س (انکیتا مکھوپادھیے)