سویڈن نے سیاسی پناہ سے متعلق قوانین مزید سخت بنا دیے
22 جون 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ سویڈش پارلیمان میں منظور کیے گئے اس نئے قانون کے تحت سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے عارضی ’ریذیڈنس پرمٹ‘ تین برس تک جاری نہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ایسے نئے مہاجرین کی ملک میں آمد بھی کم کر دی جائے گی، جو سویڈن میں پہلے سے سکونت پذیر اپنے اہل خانہ کے پاس جانا چاہتے ہوں۔
اکیس جون منگل کے روز سویڈش پارلیمان میں اس نئے قانون کے حق میں 240 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ 45 نے اس کی مخالفت کی۔ یہ قانون بیس جولائی سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
اس نئے قانون کا اطلاق ایسے مہاجرین اور تارکین وطن پر ہو گا، جو گزشتہ برس چوبیس نومبر کے بعد سویڈن پہنچے ہوں یا جنہوں نے اس تاریخ کے بعد اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہوں۔
گزشتہ برس سویڈن کو مجموعی طور پر سیاسی پناہ کی ایک لاکھ ساٹھ ہزار نئی درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
موجودہ قوانین کے تحت ایسے پناہ گزینوں کو، جنہیں تین برس کا عارضی ’ریذیڈنس پرمٹ‘ جاری کیا گیا ہے، اگر ملازمت مل جاتی ہے تو وہ مستقل ’ریذیڈنس پرمٹ‘ کے لیے درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ نئے قانون کے مطابق پناہ کے متلاشی ایسے افراد جنہیں ’پروٹیکٹڈ اسٹیٹس‘ حاصل ہے، وہ تیرہ ماہ کے لیے سویڈن میں رہ سکیں گے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے توسط سے سویڈن میں پناہ حاصل کرنے والے تارکین وطن بھی اس نئے قانون سے مستثنیٰ ہوں گے۔
اسٹاک ہولم حکومت کے مطابق ان نئے قوانین کا مقصد ملک میں پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کا سلسلہ روکنا اور وہاں پہلے سے موجود تارکین وطن اور مہاجرین کو بہتر انداز میں آباد کرنا ہے۔
سویڈش حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی نے اس نئے قانون کی حمایت کی جبکہ اپوزیشن کی اعتدال پسند اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی۔
یہ امر اہم ہے کہ سویڈن نے گزشتہ برس بھی سیاسی پناہ سے متعلق اپنے ملکی قوانین میں سختی کی تھی۔ مہاجرین کے بحران کی شدت کے نتیجے میں اسٹاک ہولم نے ڈنمارک سے متصل اپنی سرحدی گزرگاہوں کی نگرانی بھی بڑھا دی تھی جبکہ اچانک چیکنگ کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ مہاجرین اسی روٹ کا استعمال کرتے ہوئے ڈنمارک سے سویڈن میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں۔
سویڈن میں سن 2014 سے اب تک مجموعی طور پر دو لاکھ پینتالیس ہزار مہاجرین اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شامی، افغان اور عراقی باشندے ہیں۔