سویڈن نے بھی کشمیر میں پابندیوں کے خاتمے کی اپیل کر دی
29 نومبر 2019سویڈن نے یہ اپیل ایک ایسے وقت پر کی ہے، جب سویڈش بادشاہ کارل گستاف شانز دہم اور ملکہ سلویا کے ساتھ ایک اعلی سطحی وفد یکم دسمبر سے بھارت کا چھ روزہ دورہ شروع کر رہا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق سویڈن کی وزیر خارجہ این کرسٹن لِنڈے نے بدھ کے روز ملکی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں سیکورٹی لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن بلیک آؤٹ پر ان کے ملک کو تشویش ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سویڈن نہیں چاہتا کہ کشمیر میں صورت حال مزید خراب ہو،''اس مسئلہ کا کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کرنے میں کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے۔‘‘
این لِنڈے بھارت کے دورے پر آنے والے سویڈش شاہی جوڑے کے وفد میں بھی شامل ہوں گی اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے مختلف امور پر بات چیت کریں گی۔ کشمیر کے حوالے سے سویڈش وزیر خارجہ کے بیان پر بھارت کا اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اس سے قبل اس ماہ کے اوائل میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فن لینڈ کے وزیر خارجہ پیکا ہاوستو نے بھارت کے اپنے سرکاری دوروں کے دوران کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں کے حالات'پائیدار اور اچھے نہیں‘ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے بھارت سے اپیل کی تھی کہ پانچ اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردیے جانے کے بعد سے ریاست میں جاری سیکورٹی لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کو ختم کرکے انسانی حقوق کو بحال کرے۔
سویڈش وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر کی صورتحال ”تشویش ناک" ہے اور سویڈن اور یورپی یونین بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کا مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل تلاش کرنے کی تائید کرتے ہیں۔
ان کے بقول”ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور وہاں کی صورت حال کو مزید ابتر ہونے سے روکا جائے اور کسی بھی دیرپا سیاسی حل میں کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کافی اہم ہیں۔" این لِنڈے کا یہ بھی کہنا تھا کہ سویڈن اور یورپی یونین نے بھارت سے کشمیر میں عائد بقیہ پابندیوں کو بھی اٹھا لینے کی اپیل کی ہے۔
اس دوران بھارت میں سویڈن کے سفیر کلاز مولن Klas Molin نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ان کے ملک کا یہ ایک اصولی موقف ہے،'' ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ یہ دہائیوں پرانا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم بار بار یہ بات کہہ بھی چکے ہیں کہ چونکہ تاریخی طور پر اس کی نوعیت باہمی ہے اس لیے اسے صرف دونوں متعلقہ فریقین، بھارت اور پاکستان، کے مابین باہمی مذاکرات کے ذریعہ ہی مناسب طور پر حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں کلاز مولن نے گو تسلیم کیا کہ کشمیر میں سیکورٹی سے متعلق بھارت کی فکرمندی جائز ہے تاہم ان کا کہنا تھا، ”ہم اور یورپی یونین اس امر کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے کشمیریوں کی بھی اپنی اہمیت مسلّمہ ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریوں کی شکایتوں کے ازالہ کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے۔"
سوئیڈش سفیر کا کہنا تھا کہ دنیا کی بہت سی تنظیموں اور یورپ کی متعدد تنظیموں نے بھی کشمیر میں سکیورٹی لاک ڈاؤن اور کمیونیکیشن بلیک آؤٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے،''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں جتنی جلد ختم ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہو گا۔‘‘
سویڈش سفیر نے اس امر سے انکار نہیں کیا کہ سویڈش وزیر خارجہ کی اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ وفد کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے دوران کشمیر کا مسئلہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ کارل گستاف کوئی سیاسی بیان نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ سویڈن اور بھارت کے درمیان دیگر شعبوں کے علاوہ دفاع بھی باہمی تعاون کا ایک اہم شعبہ ہے۔ سویڈن کی کمپنی ایس اے اے بی بھارتی فضائیہ کو ایک سو چودہ گریپین جنگی طیارے فروخت کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔ دونوں ممالک بحری شعبے میں معاہدہ پر بھی کام کررہے ہیں۔ 2018 ء میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 3.37 بلین ڈالر تھی۔
دریں اثنا بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سویڈش بادشاہ کارل گستاف کا بھارت کا یہ تیسرا دورہ ہے۔ اس سے قبل وہ سن 1993اور سن 2005 میں بھارت آچکے ہیں۔ اپنے آئندہ دورے میں وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کووند سے بھی ملاقات کریں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط ہونے کی امید ہے۔