سو سے زائد مہاجرین کو ریسکیو کر لیا گیا، یونان حکام
عاطف توقیر
5 ستمبر 2017
یونانی حکام کے مطابق بحیرہء روم سے 103 تارکین وطن کو ریسکیو کیا گیا ہے اور انہیں ملک کے جنوبی جزیرے کریتے پر پہنچایا جا چکا ہے۔
اشتہار
یونانی کوسٹ گارڈ کی جانب سے منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک شکستہ کشتی میں سوار یہ افراد سمندری موجوں سے نبرد آزما تھے کہ قریب سے گزرنے والے ایک کارگو جہاز نے ان کی نشان دہی کی۔ اس سے قبل اس کشتی کی جانب سے حکام کو پریشانی کے سگنل بھی ارسال کیے گئے تھے، مگر کشتی کے درست مقام کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس کشتی نے اپنے سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور یہ اصل میں کہاں پہنچنا چاہتی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ روز یونانی کوسٹ گارڈ نے چھوٹی کشتیوں میں سوار 107 تارکین وطن کو مشرقی جزیرے لیسبوس کے قریب سے ریسکیو کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس اب تک 15 ہزار دو سو تیس تارکین وطن سمندر کے راستے یونان پہنچ چکے ہیں۔
سن دو ہزار پندرہ میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے وقت کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی نہایت کم ہے۔
تاہم اب بھی ہزاروں مہاجرین یونان میں موجود ہیں اور درجنوں اس امید کے ساتھ یونان کا رخ کرتے نظر آتے ہیں کہ شاید انہیں مغربی یورپ جانے کا کوئی راستہ مل جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں یونان ہی کے راستے سے قریب ایک ملین مہاجرین نے مغربی اور شمالی یورپ کا رخ کیا تھا۔
بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی اپنی قومی سرحدوں کی بندش اور یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپ پہنچنے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
تاہم اب شمالی افریقہ سے تارکین وطن بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی اور اسپین کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔