' سيوتا ميں مہاجر بچوں کی حالت زار کی مذمت کرتے ہیں‘
انفومائگرینٹس
11 اپریل 2018
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے نے مراکش میں ہسپانوی علاقے سیوتا سے سرپرستوں کے بغیر اسپین کی طرف ہجرت کرنے والے تارکین بچوں کی حالت زار کی مذمت کی ہے۔
اشتہار
تارکین وطن کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائگرینٹس کے مطابق بچوں کی بہبود کے ادارے ’سیو دا چلڈرن‘ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مراکش میں اسپین کے انکلیو سیوتا میں بہت سے تنہا سفر کرنے والے نابالغ مہاجر بچوں کی حالت بہت خراب ہے۔
اس رپورٹ میں اس مراکشی بچے کی ہلاکت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو سیوتا سے اسپین جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سیو دا چلڈرن نے مزید کہا،’’ سرپرستوں کے بغیر سفر کرنے والے قریب ڈھائی سو غیر ملکی بچے ایسے ہیں جنہیں سیوتا میں تحفظ ملنا چاہیے تھا تاہم ان میں سے کم از کم پچاس بچے باہر سڑکوں، ڈھلانوں اور کشتیوں یا کاروں کے بونٹ میں سونے پر مجبور ہیں۔‘‘
سیو دا چلڈرن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اکیلے سفر کرنے والے بچوں میں سے زیادہ تر کی عمر دس سال سے کم ہے اور یہ یورپ میں اپنے خاندانوں کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی ہر روز کشتیوں پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی اس عالمی فلاحی تنظیم کی یہ مذمت چھ اپریل کو مراکش کے ایک سولہ سالہ لڑکے کی ہلاکت کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ عمر نامی اس لڑکے کو سیوتا میں ایک بس نے کچل دیا تھا۔
مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ عمر کو بس ڈرائیور نے جان بوجھ کر کچلا۔ یہ بچہ ايک فیری کے ذریعے اسپین جانے والی بس میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مہاجر بچوں میں سے ایک نے بتایا ہے کہ بس ڈرائیور نے عمر کو چھپتے دیکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا تھا۔ پھر جب دونوں بچوں نے بس ڈرائیور سے بچنے کی کوشش کی تو مبینہ طور پر ڈرائیور نے ان کا پیچھا کیا۔ دوسرا تارک وطن بچہ چھپنے میں کامیاب ہو گیا لیکن عمر بس کے ٹائروں کے نیچے آ کر ہلاک ہو گیا۔
بين الاقوامی امدادی ادارہ ’سيو دا چلڈرن‘ تنہا سفر کرنے والے بچوں کے تحفظ کو يقينی بنانے کے ليے ’کثير القومی نظام‘ کے قيام پر زور ديتا ہے تاکہ سفر کے دوران ان بچوں کا تمام ممالک ميں تحفظ ممکن بنايا جا سکے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔